لاوارث کیک

30 اکتوبر 2014
اس وقت پاکستان کی حالت اس کیک جیسی ہوگئی ہے جسے کھانے کے لیے چاروں طرف سے ٹوٹ پڑا جائے، اور کسی کے ہاتھ کچھ نا آئے — فوٹو بشکریہ vudesk.com
اس وقت پاکستان کی حالت اس کیک جیسی ہوگئی ہے جسے کھانے کے لیے چاروں طرف سے ٹوٹ پڑا جائے، اور کسی کے ہاتھ کچھ نا آئے — فوٹو بشکریہ vudesk.com

ملک میں اس وقت بھوک و ننگ ناچ رہی ہے، عوام کا برا حال ہے، اسپتالوں میں کتے اور اسکولوں میں گدھے راج کر رہے ہیں اور ہماری سیاسی اشرافیہ نیا پاکستان بنانے اور جمہوریت بچانے کا سرکس لگائے بیٹھی ہے۔ جلسے جلوس روز کا معمول بنا ہوا ہے جس کا دل کرتا ہے منہ اٹھا کر لاوارث اور مسکین عوام کو گاڑیوں میں ٹھونس ٹھونس کر اپنا سیاسی قد ظاہر کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔

خیبر پختونخواہ میں دس لاکھ متاثر بے یارومددگار پڑے ہیں، مگر حکمران سیاسی چپو لیے اسلام آباد اور دیگر شہروں کے سیر سپاٹے میں مصروف عمل ہیں۔ پنجاب میں سیلاب سے متاثر بیس لاکھ سے زائد لوگ بے سرو سامان اور لاچاری کے عالم میں بے بس ادھر ادھر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر حکمران طعنے دینے اور الزامات کی بوچھاڑ میں مصروف عمل ہیں۔ سندھ میں تھر کی عوام قحط میں مبتلا ہے اور حکمران چھتیس چھتیس ڈشیں بنوانے اور تناول فرمانے میں مصروف۔

جہاں نظر دوڑائی جائے وہاں سیاسی جوکر اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایسے بےقرار ہیں جیسے بھوکا بھیڑیا بکری کو دیکھ کر ہوتا ہے کے کب موقع ملے اور اس پر جھپٹ جائے۔

اس وقت پاکستان میں ادارے تباہ ہو رہے ہیں، معیشت دیوالیہ ہونے کو ہے، دہشتگردی اور لا قانونیت کا جن کب کا بوتل سے باہر نکل آیا ہے، غربت اپنے عروج پر، وسائل نہ ہونے کے برابر، روزگار سونے سے مہنگا، لیکن سیاسی اشرافیہ اپنی ڈگڈگی بجانے کے علاوہ کچھ کرتے ہوئے نظر نہیں آ رہی۔ جہاں دیکھو سیاسی جوکر ایک ہی ڈرامے کر رہے ہیں اور اس ڈرامے کی کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں اس وقت جاری ڈراموں پرلاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں حکومتی وسائل کا بھی بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ عوام نے انہیں حق حکمرانی اپنی ذاتی زندگی کو خوشنما بنانے اور سیاسی قد کاٹھ ناپنے کے لیے لگائی جانے والی نو ٹنکیوں کے لیے دیا تھا۔ جدھر دیکھو عوام کا برا حال ہے جبکہ حکمران ہوس اقتدار میں بے حال ہیں۔


پڑھیے: مقابلہ خوب ہے


وطن عزیز کے پیچھے یزید پڑے ہوئے ہیں، ہمیں جلسوں جلوسوں سے فرصت نہیں، ملک کے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جا پا رہے، ہم ہیں کے فلائی اوور اور میٹرو جیسے نکمے اور گھٹیا منصوبوں پر زبردستی کی خوشامد کے متلاشی ہیں۔ کہتے ہیں علم کے بغیر انسان اندھا ہے لیکن ہم کرہ ارض پر واحد قوم ہیں جو اپنی نوجوان نسل کو نور دینے کے بجائے انہیں بندوقوں اور پٹاخوں سے بہلا رہے ہیں۔

پاک فوج دھرتی پر بڑھتے ہوئے کینسر جیسے مہلک مرض کو نیست و نابود کرنے میں مصروف ہے اور سیاسی جوکر ڈگڈگی پر تماشا لگا کے نیک مقصد کے لیے شہادت پانے والے شہیدوں کی لاشوں کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔

ملک میں عوام کے پاس پینے کو صاف پانی میسر نہیں جبکہ منرل واٹر سے نہانے والے کروڑوں روپے جلسے جلوسوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ اسلام آباد والی نوٹنکی سے لے کر کراچی والے سرکس تک کروڑوں سے بڑھ کر اربوں روپے خرچ کے جا رہے ہیں۔ اگر یہ پیسا عوام کو گاڑیوں میں ٹھوس ٹھوس کر لانے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو یقیناً انقلاب برپا ہو جائے اور تبدیلی بھی آجائے اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو لاحق مبینہ خطرات بھی ٹل جائیں۔ مگر نہیں اگر یہ سب کچھ کرنے بیٹھ جائیں گے تو پاکستان کی عزت کیسے ملیامیٹ ہو گی اور انٹرنیشنل کمیونٹی ہمیں گھٹیا ترین الفاظ سے کیسے یاد کرے گی۔

عوام کوگاڑیوں میں ٹھونس ٹھونس کر لا کر ایک دن بریانی کھلانے سے بہتر ہے کہ انہیں مستقل روزگار کے ذرائع فراہم کیے جائیں مگر نہیں ایسا کریں گے تو بنگلوں اور حویلیوں سے رونقیں غائب ہو جائیں گی۔ اگر نوجوان طبقہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا تو ان نو ٹنکی بازوں کا تماشا کون دیکھے گا؟

ہمارے ملک میں اسپتال تو موجود ہیں لیکن ڈاکٹر اور دوائیاں نہیں تو کیا ہوا، ڈاکٹر تو وی آئی پی ڈیوٹیوں کے لیے ہیں۔ غریب اور مفلس لوگ مرتے ہیں تو مریں، اچھا ہے ملک کی آبادی کم ہو گی ویسے ہی ملک میں آبادی زیادہ اور وسائل کم ہیں۔

کیا ہوا اگر تھانوں میں نفری نہیں ہے تھانے تو موجود ہیں نا؟ نفری عوام کے لیے تھوڑی نہ ہوتی ہے وہ تو بڑے بڑے بوٹ اور سوٹ والوں کے دروازوں اور اسکواڈ کے لیے رکھی ہے۔ باقی کرائم کم کرنے لوٹ مار کی روک تھام کے لیے تھانوں کا ڈر ہی کافی ہے۔ تھانوں کا وجود کوئی معمولی بات تھوڑی ہے۔ وہ بھی اگر ان لمبے لمبے بوٹوں والوں کا بس چلے تو بیچ کے کھا جائیں یا اپنے باپ داداؤں کے نام پر پلازے بنوا لیں۔

یہ تو پاکستانی قوم پر ان کی مہربانی ہے کہ ابھی تک سرکاری عمارتیں محفوظ ہیں، ویسے کرنے والوں نے تو کئی سرکاری عمارتیں تو کیا قبرستان تک ہتھیانے کی کوششیش ضرور کیں، مگر پتا نہیں کن نیک بندوں کی دعائیں تھیں کہ مکلی کا قبرستان بچ گیا، ہاں لیکن اس عمل کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافی کو اپنی قلم کا استعمال کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔


دیکھیے: مخلص سیاستدانوں کے سچے بیانات


ہمارے ملک میں تو متاثرین کے پاس بھی ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے جایا جاتا ہے۔ دیکھا نہیں پچھلے دنوں پنجاب کے متاثرین جو اپنا گھر بار لٹا کے کیمپوں میں سر چھپائے بیٹھے تھے انہیں کے پیسوں سے ان سے ملاقات کے لیے ہیلی کاپٹر اور جیٹ طیاروں پر سفر ہوتا رہا۔ عوام بھوک افلاس سے گردے اور بچے بیچنے پر مجبور ہیں، جبکہ حکمران انہیں کے پیسے سے نئی بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز خرید رہے ہیں۔ عوام کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہے لیکن حکمرانوں کی سیکورٹی کے لیے عوام کے پیسوں سے کتے خریدے جا رہے ہیں۔

عوام کے پیسوں پر عوام کو لاٹھیاں مارنے اور ذلیل کرنے کا فیشن تو عام ہے اور عوامی پیسے پر عیش کرنا ان کا حق، اور یہ حق انہیں عوام نے ووٹ دے کے دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جوحضرات VIP کلچر کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں وہ بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ کیا یہ دوغلا پن نہیں؟ لیکن دوغلا پن کیا ہوتا ہے اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ کیونکہ منافقت تو سیاست کا بنیادی جزو ہے، تو اسے استعمال کر کے شرمندگی کیسی؟

اپنی ذاتیات اور انا کے لیے تو دھرنے دیے جا رہے ہیں اور جلسے بھی ہو رہے ہیں، لیکن کاش ان سیاسی جوکروں میں سے کوئی ایسا ہوتا جو بھوک، بیروزگاری، کرپشن، لاقانونیت، انصاف، روزگار، تعلیم، صحت سمیت دیگر انیک مسائل جن کا عوام کو سامنا ہے ان کے لیے کوئی دھرنا دیا جاتا، کوئی لانگ مارچ ترتیب دیا جاتا۔ مگر کیا فائدہ ان کیڑے مکوڑوں کے لیے آواز اٹھانے کا یہ لوگ تو ڈگڈگی پر تماشا دیکھنے آہی جاتے ہیں لہٰذا ان پر اپنا وقت اور پیسا کیوں برباد کیا جائے؟ سب کا مقصد صرف "پاکستان کی حکمرانی" نامی لا وارث کیک کو ہتھیانا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے لپک لپک کے کیے جانے والے واروں نے اس کیک کا ستیاناس کر دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں