کراچی کی سیاسی جماعتوں کے لیے بل بورڈز 'مفت'

کراچی کی سیاسی جماعتوں کے لیے بل بورڈز 'مفت'

کراچی : محمد عارف کو لگا جیسے ان کا خزانہ ہی نکل آیا جب انہیں بوٹ بیسن پر یعنی کراچی کے بالائی طبقے کے اہم ترین علاقوں میں سے ایک میں بل بورڈ کی جگہ مل گئی۔

کراچی جیسے مصروف ترین بڑے شہر میں کاروبار کے لیے آﺅٹ ڈور ایڈورٹائزنگ کے لیے مقامات کو ہی سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے ، مگر عارف جو ایسی اشتہاری کمپنی کو چلا رہے ہیں، کے لیے ایک پرکشش جگہ کا ملنا زندگی کے سب سے بھیانک خواب کی شکل میں ڈھل گیا۔

عارف کا کہنا ہے کہ بیس بائی ساٹھ فٹ کا بورڈ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مجسمے کے بالکل نیچے تھا جو اسے بغیر رقم کی ادائیگی کے 'سیاسی ڈسپلے' کے لیے مثالی بنانا ہے۔

پرائم سروسز کے اس سی ای او نے بتایا" میں سالانہ 58 لاکھ روپے اس بورڈ کے لیے ادا کرتا ہوں مگر گزشتہ چند ماہ کے دوران میں اسے ایک بار بھی ایڈورٹائزنگ کے لیے استعمال نہیں کرسکا"۔

ان کا مزید کہنا تھا"شہری حکومت اس سلسلے کو نہیں روک رہی بلکہ وہ اس مقام کے میرے لائسنس کو ہی منسوخ کرنے پر تلی ہوئی ہے، میں سیاسی مشہوری کے لیے اپنی جیب سے رقم خرچ کرنے پر مجبور ہوں"۔

عارف کراچی کے ان متعدد بل بورڈز مالکان میں سے ایک ہیں جنھیں اسی قسم کی مشکل کا سامنا ہے۔

ایڈورٹائزرز کے نمائندہ ادارے کا دعویٰ ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں بل بورڈز اور ہورڈنگز کو اپنی مہمات کے اشتہار کے طور پر استعمال کرتی ہیں مگر اس کے عوض میں کسی قسم کی رقم ادا نہیں کرتی۔

کراچی بھر میں تین ہزار لگ بھگ بل بورڈز موجود ہیں جنھیں یہ ایڈورٹائزنگ کمپنیاں شہری حکومت سے تین سالہ مدت کے لیے خریدتی ہیں، معمول کی برانڈ پروموشن سے ہٹ کر ہر جماعت کے سالانی سیاسی ایونٹس اپنی اشتہاری مہم کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں جس سے ان کمپنیوں کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سندھ آﺅٹ ڈور ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن(ایس او اے اے) کے سابق عہدیدار اویس نقوی کا کہنا ہے"جماعتیں ہمیں ایک پیسہ تک ادا نہیں کرتیں، وہ ہمیں آگاہ یا ہمارے بورڈز کو استعمال کرنے پر شکریہ تک ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں'۔

انہوں نے بتایا"یہ صرف ایک جماعت کی بات نہیں، مذہبی ہو یا سیاسی ہر جماعت اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہے"۔

ہر کوئی ایسا کررہا ہے

نام چھپانے کی شرط پر پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک سنیئر ترجمان نے اس حقیقت کا اعتراف کیا مگر ساتھ یہ بھی کہا"میرے خیال میں تو یہ اس صورت میں بالکل جائزہ وگا اگر ان بل بورڈز پر اپنی مہم کو تین سے چار روز سے زیادہ نہ چلایا جائے"۔

متحدہ قومی موومنٹ کے ایک پارٹی عہدیدار نے بھی نام چھپانے کی شرط پر بتایا"جی ہاں ایسا ہوتا ہے اور کراچی میں یہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے، میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم ایڈورٹائزرز کو کوئی ادائیگی نہیں کرتے ، مجھے نہیں لگتا کہ کوئی جماعت انہیں معاوضہ دیتی ہوگی، یہ صرف ایم کیو ایم نہیں بلکہ ہر ایک اس میں ملوث ہے"۔

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی ہمیشہ بل بورڈز استعمال کرنے کا معاوضہ ادا کرتی ہے"یہ معلومات درست نہیں کیونکہ ہم ان کا کرایہ ادا کرتے ہیں، ہم ایڈورٹائزرز سے بل بورڈز پر اشتہارات لگانے سے پہلے اجازت بھی لیتے ہیں، اگر کوئی غلطی یا غلطی فہمی پیدا ہوجائے تو ہم انہیں ہٹابھی دیتے ہیں"۔

لازمی کوریج

اویس نقوی کا کہنا ہے"ہر جماعت کے ایونٹس کی لمبی فہرست ہے جنھیں وہ مناتے ہیں، جیسے متعدد یوم تاسیس، الطاف حسین کی سالگرہ، ان کی بیٹی کی سالگرہ، ذوالفقار علی بھٹو کی برسی اور سالگرہ، محرم پوسٹرز، زکوة وغیرہ، یہ فہرست کبھی ختم نہیں ہوتی"۔

ان کا مزید کہنا تھا"یہ ان جماعتیں کے لیے لازمی کوریج والے ایونٹس ہوتے ہیں، مگر ہڑتالیں، جلسے اور احتجاج کی پروموشن غیرجواب دہ اور ان گنت ہوتی ہیں"۔

ایک پینافلیکس شیٹ ہٹانے کی بجائے اسے متعلقہ فریقین کو آگاہ کیے بغیر کسی نئی شیٹ سے کور کردیا جاتا ہے اور اویس نقوی کا کہنا ہے"اس سے ہمارے صارفین کی مہم میں خلل پڑتا ہے اور وہ ان ایام کا معاوضہ دینے سے بھی انکار کردیتے ہیں جب ان کے پوسٹرز چھپے ہوئے ہوتے ہیں، یا ہم سے ان دنوں کی جگہ مزید دن فراہم کیے جانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے"۔

ان حالات نے ایڈورٹائزر کو کافی سختی کرنے پر مجبور کردیا ہے اور اویس نقوی کے بقول" ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ زرتلافی کے طور پر اسی علاقے میں اسی دورانیے میں مصنوعات کی پروموشن کی جائے، تاہم اکثر اوقات صارفین اس کو مسترد کردیتے ہیں"۔

عارف کا کہنا ہے"ہر برس ہم مجموعی طور پر تین سے چار ماہ تک کاروبار سے باہر رہتے ہیں، کم از کم حکومت ہمیں ان دنوں میں ٹیکس ریلیف تو فراہم کرے، جب ہم ٹیکس ادا کرنے میں ناکام ہوجائے تو وہ ہمیں ڈیفالٹر کہتی ہے"۔

عارف کی جانب سے سالانہ ٹیکس جس میں لینڈ اور اسکائی رینٹ بھی شامل ہے، شہری حکومت کو ادا کیا جاتا ہے۔

یہ صرف ایڈورٹائزرز نہیں جنھیں یہ بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے بلکہ کپڑے پر بینر بنانے والوں، پرنٹنگ کرنے والے بھی سیاسی جماعتوں کی اس بہتی گنگا سے خود کو بچا نہیں پاتے۔

سپر آرٹس ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے سید محمد ناصر کا کہنا ہے"کاروبار اس وقت تھم جاتا ہے جب سیاسی جماعتیں مداخلت کرتی ہیں، جب وہ بل بورڈز پر اپنے پارٹی پرچم لگا دیتے ہیں تو ہمیں صارفین کی شکایت کا جواب دینا پڑتا ہے"۔

مزاحمت اپنے خطرے پر

محمد ناصر کا دعویٰ ہے کہ اس کے خلاف مزاحمت یا سیاسی ہورڈنگ کو اتار دینے کے نتائج خطرناک بھی ہوسکتے ہیں"اگر ہم شیٹ ہٹانے کی کوشش کریں تو پارٹی اراکین نہ صرف ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں بلکہ ہمارے افراد پر تشدد اور انہیں بند بھی کردیتے ہیں"۔

جب محمد عارف نے ایک پارٹی کا پینافلیکس ہٹانے کی کوشش کی تو انہیں کئی روز تک دھمکیوں والی کالز ملتی رہیں جنھیں وہ نظرانداز کرتے رہے"جب میں ان پر توجہ نہ دی تو انہوں نے میرے صارفین کو حکم دیا کہ وہ میرے بل بورڈ سے اپنی مہم کے اشتہار کو ہٹوا دیں یا شہر بھر میں اپنی مہم سے دستبردار ہوجائیں"۔