طالبان کا خوف، ملالہ کے نوبیل انعام پر کوئی خوشی نہیں منائی گئی

23 اکتوبر 2014
اکیس اکتوبر کو فلاڈیلفیا، امریکا میں ملالہ کو لبرٹی میڈل سے نوازا گیا، وہ یہ میڈل وصول کرنے کے بعد خوشی کا اظہار کررہی ہیں۔ —. فوٹو اے پی
اکیس اکتوبر کو فلاڈیلفیا، امریکا میں ملالہ کو لبرٹی میڈل سے نوازا گیا، وہ یہ میڈل وصول کرنے کے بعد خوشی کا اظہار کررہی ہیں۔ —. فوٹو اے پی

پشاور: سوات میں طالبان کی حکمرانی کے دوران تعلیم کے فروغ کی مہم کی بہادرانہ مہم چلانے پر ملالہ یوسف زئی نے کئی بین الاقوامی ایوارڈزوصول کیے ہیں، لیکن تعلیم کے لیے مہم چلانے والی اس نوجوان طالبہ کے اعزاز میں سرکاری سرپرستی کے تحت کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی۔

یہاں تک کہ انہوں نے 2014ء کا امن کا نوبیل انعام بھی حاصل کرلیا، لیکن عسکریت پسندوں کے حملوں کے ڈر سے کوئی پروگرام منعقد نہیں ہوا۔

باچہ خان تعلیمی فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر خادم حسین نے ڈان کو بتایا ’’خیبر پختونخوا اور وفاقی دونوں حکومتوں کو اُس لڑکی کی قدر کرتے ہوئے کسی تقریب کے انعقاد پر طالبان کی ا نتقامی کارروائی کا خدشہ ہے، جبکہ اس لڑکی نے عسکریت پسندوں کی تعلیم مخالف مہم کا بے جگری سے مقابلہ کیا تھا۔‘‘

ڈاکٹر خادم نے کہا کہ باچہ خان فاؤنڈیشن نے اپنی استطاعت کے مطابق چند پروگراموں کا انعقاد کیا تھا، لیکن یہاں سرکاری سرپرستی میں بڑے پیمانے پر کسی تقریب کا انتظام کیا گیا اور نہ ہی عوامی سطح پر ملالہ کو اپنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری سرپرستی میں اعلٰی سطحی پروگراموں کا انعقاد نہ کرکے ملک دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا ایک بڑا موقع کھورہا ہے۔

باچہ خان تعلیمی فاؤنڈیشن کے سربراہ نے کہا کہ عسکریت پسندی کا نشانہ بننے والے پاکستان کو دنیا میں تنہائی کا سامنا ہے، لہٰذا ملالہ کی بین الاقوامی شہرت کا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا ’’ہم نئے اسکولوں اور کالجوں کی تعمیر کرسکتے ہیں اور ان کی مرمت کرسکتے ہیں، جنہیں سوات اور قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں نے تباہ کردیا تھا، لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت نے اب تک اس بچی کو وہ درجہ نہیں دیا، جس کی وہ مستحق ہے۔‘‘

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ملالہ کی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ کی تقریبِ رونمائی کے انعقاد سے آخری لمحات میں منع کردیا تھا، جو اس سال جنوری میں پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر میں منعقد کی جانی تھی۔

واضح رہے کہ اس یونیورسٹی میں سیاسی، ثقافتی اور دیگر مسائل پر متواتر سیمینار اور مباحثے منعقد کیے جاتے ہیں، لیکن اس طرح اچانک پروگرام کے انعقاد سے روک دینے پر منتظمین کو مایوسی ہوئی تھی۔

یہ کتاب جس کی ملالہ شریک مصنفہ ہیں، طالبان کے حملوں کے خطرے کی وجہ سے ملک بھر میں آزادانہ دستیاب نہیں ہے۔

ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ انہیں پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت میں خیبر پختونخوا کی مخلوط حکومت کے اس اقدام پر حیرت نہیں ہوئی، اس لیے کہ یہ اپنے دل میں طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملالہ کو بطور چیمپئن تسلیم کرنے میں وفاقی حکومت کی ناکامی کسی کے لیے باعثِ حیرت نہیں، اس لیے کہ مسلم لیگ ن نے عسکریت پسندوں اور دہشت گردی کی کبھی مخالفت نہیں کی۔

ان کے مطابق اساتذہ بے دلی بھی پریشان کن ہے، جو یونیورسٹی میں مختلف موضوعات پر مسلسل بات کرتے ہیں، لیکن اپنی یونیورسٹی کے احاطے میں ملالہ یوسف زئی کو ایوارڈ سے نوازے جانے پر کسی قسم کی تقریب کا انتظام کرنے میں ناکام رہے۔

یہ پروفیشنلز کسی بھی موضوع پر بات کرنےسے نہیں ہچکچاتے، لیکن ملالہ کے بارے بات کرنے کے لیے ان کے پاس چند الفاظ بھی نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کو اپنی ملازمتوں کا خوف ہے۔

البتہ نجی محفلوں میں وہ اس کی کامیابی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہر ایک تسلیم کرتا ہے کہ اس بچی کو نوجوانوں کے لیے ایک متاثرکن قوت بنایا جاسکتا ہے، لیکن وہ ملالہ کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

ڈاکٹر خادم حسین نے کہا ’’ہم بدقسمت ہیں کہ ہم اس حیثیت میں ہیں کہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی فوائد کو ملالہ کے ذریعے دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں، جو اس وقت بین الاقوامی شخصیت بن گئی ہے، لیکن حکومت سازش میں شریک ہے۔‘‘

یاد رہے کہ ملالہ نے پاکستانی اور ہندوستانی وزیراعظموں کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی، جس میں وہ نوبیل پرائز وصول کریں گی۔

ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ نوبل انعام کی سب سے کم عمر وصول کنندہ پاکستانی طالبہ کے اعزاز میں اسلام آباد، مینگورہ اور پشاور پریس کلب میں منعقدہ جلسے ملالہ کے حوالے سے خوشی کے اظہار کے لیے کافی نہیں تھے۔

انہوں نے کہا ’’ان کو امن کا نوبیل انعام ملنے سے پہلے ہی بڑے پیمانے پر ان کی بہادری کو سراہا گیا تھا۔ یہاں تک کہ افغانستان نے صدارتی محل میں ایک تقریب ان کے اعزاز میں منعقد کی تھی۔‘‘

باچہ خان تعلیمی فاؤنڈیشن کے سربراہ جو ایک سیاسی تجزیہ نگار بھی ہیں، کو یقین ہے کہ ملالہ نوجوان لڑکیوں کے لیے ناصر پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں بطور قوت کشش کے کام کریں گی، اور یہ نوجوان اب نوبیل امن پرائز حاصل کرنے جیسا کوئی سب سے بڑا سنگِ میل عبور کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے۔

انہوں نے کہا ’’ایک مرتبہ ہم خوف کی حالت سے باہر نکل آئیں، یہ واضح ہوجائے گا کہ ملالہ کو ملک میں ہر عمر کے لوگوں کی زبردست عوامی حمایت حاصل ہے۔‘‘

ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے بیانات یا اخباری اشتہارات میں ملالہ کو خراجِ تحسین پیش کیا، اس سے ان کی مکمل حمایت کی عکاسی نہیں ہوتی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ملک انور ضیاء Oct 24, 2014 01:44am
ڈاکڑ طاہرالقادری صاحب دین و دنیا کے علم کا سمندر ہے جنکی کہی ہوئی بات کو دنیا میں کوئی مائی کا لال غلط ثابت نہیں کر سکتا چیلج ہے سبھی کو...