اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی نااہلی کے لیے دائر ایک درخواست میں اٹھائے گئے قانونی نکات پر اٹارنی جنرل سے ایک ہفتے میں جامع جواب طلب کرلیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق عدالت عظمی کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت ارکان اسمبلی کے صادق اور امین ہونے کی شرط سے متعلق درخواست پر فیصلہ ضرور دے گی، آدھی اسمبلی بھی فارغ ہوجائے تو انھیں فرق نہیں پڑتا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس قاضی فائز عیسی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

واضح رہے کہ یہ تین رکنی بینچ ہے جو تین ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔ یہ درخواستیں پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی، مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور ایڈوکیٹ گوہر نواز سندھو کی جانب سے دائر کی گئی تھیں، جس میں سپریم کورٹ سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ چونکہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران 29 اگست کو مبینہ طور پر جھوٹ بولا تھا کہ موجودہ سیاسی تعطل کے خاتمے کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اور حکومت کے درمیان فوج کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے حکومت نے گزارش نہیں کی تھی۔

حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزار ایڈووکیٹ گوہر نواز نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں آئے ہیں، عدالت عظمی ان کی گزارشات کو سنے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم آپ کو بھی سنیں گے مگر آج 2رکنی بنچ ہے، تیسرے جج موجود نہیں ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ پہلے ہی لارجر بنچ کے سامنے موجود ہے، اہم سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت عدالتی دائرہ کار میں آتا ہے یا نہیں۔


وزیراعظم نااہلی کیس: نواز شریف کی تقریر کا متن طلب


درخواست گزار گوہر سندھو نے کہا کہ ایک مرتبہ طے ہوجانا چاہیے کہ کس طرح کے لوگ اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ قوم چاہتی ہے کہ ان کے نمائندے کاذب نہ ہوں، قوم کے ساتھ سچ بولنا ہر شخص کا فرض ہے،

انہوں نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ ایک بار طے ہوہی جائے، ابھی بلدیاتی انتخابات بھی ہونے ہیں اور وہاں بھی امیدواروں کے صادق اور امین ہونے کے جھگڑے ہوں گے، اس لیے اس مسئلے پر عدالت کا کوئی نہ کوئی فیصلہ بطور مثال ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے ایک رکن یا آدھی اسمبلی فارغ ہو جائے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

عدالت نے وزیراعظم کی نااہلی کے مقدمے میں دیگر دو فریق مسلم لیگ( ق) کے چودھری شجاعت حسین اور تحریک انصاف کے اسحاق خاکوانی کو ہدایت کی کہ وہ تحریری طور پر آگاہ کریں کہ کیا وہ ذاتی حثیت میں یا اپنی جماعتوں کی جانب سے اس مقدمے کی پیروی کریں گے۔

عدالت نے درخواست گزار گوہر سندھو کی جانب سے اٹھائے گئے قانونی نکات پر اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرتے ہوئے درخواستوں کی سماعت 1 ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔


آرمی چیف کو بطور گواہ پیش کرسکتے ہیں؟ سپریم کورٹ کا سوال


یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور پاکستان عوامی تحریک نے لاہور میں تحریک منہاج القران سیکریٹریٹ پر پولیس کی فائرنگ سے کارکنان کی ہلاکت پر احتجاجاً وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کے استعفی کا مطالبہ کررکھا ہے۔

اسلام آباد میں دھرنوں کے دوران فوج کی جانب سے حکومت اور احتجاج کرنے والی جماعتوں کے درمیان معاملہ حل کروانے کے لیے سہولت کار بننے کی کوشش کی گئی تھی، جس پر وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں بیان بھی دیا کہ فوج سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست نہیں کی گئی تھی۔

وزیر اعظم کے بیان کے بعد فوج کےترجمان ادارے آئی ایس پی آر (انٹر سروسز پبلک ریلیشنز) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل راحیل سے ملاقات میں یہ درخواست کی تھی کہ وہ موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے بطور معاون اپنا کردار ادا کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں