پیرس: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 46 کروڑ سال پہلے زمین سے دو شہابِ ثاقب ٹکرائے تھے، جن کے گرنے سے پیدا ہونے والے گڑھے آج بھی سوئیڈن میں موجود ہیں۔

سوئیڈن کے شہروں ایسٹرسنڈ اور ملینگن کے قریب موجود ان گڑھوں کی وجہ صدیوں سے سائنسدانوں کے لیے معمہ بنی ہوئی تھی۔

سائنٹیفک رپورٹس نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کروڑوں سال قبل نظامِ شمسی میں موجود 200 کلومیٹر بڑے شہابِ ثاقب کے ٹوٹنے کے بعد اس کے دو ٹکڑے زمین تک پہنچے، اور سوئیڈن کے پاس موجود کم گہرے سمندر میں گرے۔

وقت کے ساتھ ساتھ سمندر کے پیچھے ہٹنے کے بعد یہ گڑھے باہر آ چکے ہیں اور اب ان میں سے ایک گڑھا ایسٹرسنڈ شہر سے 20 کلومیٹر دور، جبکہ دوسرا ملینگن شہر کے پاس موجود ہے۔

ان میں سے پہلے گڑھے کا گھیر 7.5 کلومیٹر ہے، جبکہ دوسرے کا گھیر 700 میٹر ہے۔ ان دونوں گڑھوں کے درمیان صرف 16 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، جس سے سائنسدانوں کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی شہابِ ثاقب کے حصے تھے۔

ماہرین کے مطابق ایسٹرسنڈ کا گڑھا بنانے والے پتھر کا سائز 600 میٹر، جبکہ ملینگن کا گڑھا بنانے والے پتھر کا سائز 150 میٹر رہا ہوگا۔

سوئیڈن میں موجود گڑھوں کی فضا سے لی گئی تصویر — فوٹو بشکریہ بی بی سی
سوئیڈن میں موجود گڑھوں کی فضا سے لی گئی تصویر — فوٹو بشکریہ بی بی سی

تحقیق کے مطابق یہ دونوں پتھر مارس اور جوپیٹر سیاروں کے درمیان موجود شہابِ ثاقب بیلٹ سے زمین تک آئے۔

کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان کی وجہ سے زمین کے موسم اور ماحول میں کافی تبدیلیاں واقع ہوئیں، جبکہ اس کے بعد زمین پر ڈرامائی انداز میں زندگی کی اقسام میں اضافہ ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں