وزیراعظم کی گڈ گورننس کا نسخہ

24 اکتوبر 2014
۔ —. فائل فوٹو اے پی
۔ —. فائل فوٹو اے پی

اسلام آباد: ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنے تیسرے دور حکومت کے لئے درد سر بننے والے گورننس کے معاملات پر خواب غفلت سے بیدار ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے تمام ارکان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی کی رپورٹیں تیار کریں، جس میں وہ بتائیں کہ انہوں نے گزشتہ جولائی میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک کیا کیا کام کیا۔

ایک تحریری حکم میں نواز شریف نے وزراء سے کہا کہ وہ اپنی وزارتوں اور محکموں کے حوالے سے بتائیں کہ آیا وہ گزشتہ سولہ مہینوں میں طے شدہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے کہ نہیں؟

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اس حکم کے مطابق رپورٹوں میں ان بنیادی سوالوں کے جواب دینا لازمی ہو گا۔

وزراء نے کس حد تک پارٹی کے منشور پر عمل کیا؟ عوامی فلاح و بہود کے لئے کیا اقدامات اٹھائے گئے؟ مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہے؟ انہوں نے اپنی وزارتوں میں کیا اصلاحات متعارف کرائیں؟

وزیر اعظم نے 'تمام وزیروں کا جائزہ لینے کیلئے' 28 اکتوبر کو کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس بلا رکھا ہے جو جائزہ مکمل ہونے تک جاری رکھا جائے گا'۔

سیاسی سفارشات حاصل کرنے کے لئے اجلاس میں حکمران پارٹی کے چیئرمین راجا ظفر الحق اور سیکریٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا بھی شامل ہوں گے۔

وزیر اعظم آفس پہلے ہی اپنی ان ہاؤس پرفارمنس کا آڈٹ مکمل کر چکا ہے۔

وزارتوں کی پرفارمنس پر مشتمل رپورٹوں کا موازنہ وزیر اعظم آفس کی حاصل کردہ معلومات سے کیا جائے گا تاکہ طے کیا جا سکے کہ آیا کس وزیر کی کارکردگی اچھی ہے یا نہیں۔

اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ اس مشق کے بعد کابینہ میں تبدیلیاں ہوں گی۔

کئیوں کا خیال ہے کہ بلاشبہ وزیر اعظم کی جانب سے کابینہ ارکان کے احتساب کی وجہ اپوزیشن پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی کڑی تنقید ہے۔

پی ٹی آئی نے جب سے ڈی چوک میں دھرنا دیا ہے، عمران خان ہر روز گیس اور بجلی کی غیر مثالی قیمتوں میں اضافے سے لیکر بدعنوانی اور طرز حکمرانی میں ناکامی تک ہر معاملے میں حکومت پر برستے ہیں۔

ن- لیگ کے ایک وزیر نے ڈان سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ حکومتیں اپنی ناکامیوں کو اب مزید چھپا نہیں سکتیں۔ وہ دن گزر گئے جب ایک سابق حکومت کے گندے کپڑے اگلی حکومت عوام کے سامنے پیش کرتی ہے۔

'آج کے 7/24 میڈیا دور میں کارکردگی دکھائے بغیر اقتدار میں رہنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔آپ ایک غلطی کریں اور میڈیا آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سالانہ بنیادوں پر پرفارمنس آڈٹ کریں گے اور چاہے کچھ ہو جائے پرفارم نہ کرنے والوں کو جانا ہو گا'۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وزیر اعظم نے کابینہ میں تبدیلیوں کے حوالے سے اپنا ذہن بنا لیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لئے کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ہے، جہاں وزیر اعظم طے کریں گے کہ کسے رکھنا اور کسے جانا ہو گا۔

تاہم، تنقید کرنے والے پوچھتے ہیں کہ آیا اس مشق سے ایک سال کے دوران بڑی غلطیاں کرنے والی وزات پانی و بجلی کے وزیر مملکت عابد شیر علی اور وفاقی وزیرخواجہ آصف کو گھر بھیجا جا سکتا ہے؟

یاد رہے کہ عابد شیر علی وزیر اعظم کے قریبی رشتہ دار جبکہ خواجہ آصف ن - لیگ کے ایک سینئر رہنما ہیں۔

ایک وفاقی سیکریٹری نے ڈان سے گفتگو میں تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنی رپورٹیں پہلے ہی وزیر اعظم ہاؤس کو بھجوا دی ہیں اور اب یہ وزیر اعظم پر منحصر ہے کہ کابینہ میں کیا رد وبدل ہو گا۔

تبصرے (0) بند ہیں