میں پل دو پل کا شاعر ہوں

25 اکتوبر 2014
ساحر لدھیانوی۔- بشکریہ وکی میڈیا کامنز
ساحر لدھیانوی۔- بشکریہ وکی میڈیا کامنز

برصغیر کے معروف شاعر ساحر لدھیانوی کو پرستاروں سے بچھڑے 34 برس بیت گئے۔

ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا، وہ 8 مارچ 1921 کو لدھیانہ کے ایک جاگیردار خاندان میں پیدا ہوئے۔

طالبِ علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ تلخیاں شائع ہوچکا تھا، جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔

سن 1949 میں وہ لاہور سے بمبئی گئے اور اسی سال ان کی پہلی فلم 'آزادی کی راہ' ریلیز ہوئی۔

لیکن اصل شہرت موسیقار ایس ڈی برمن کے ساتھ 1950 میں فلم نوجوان میں ان کے لکھے ہوئے نغموں کو نصیب ہوئی ان میں سے ایک گانے 'ٹھنڈی ہوائیں' کی دھن تو ایسی ہٹ ہوئی کہ عرصے تک اس کی نقل ہوتی رہی۔

ایس ڈی برمن اور ساحر کی جوڑی نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں کام کیا جو آج بھی یادگار ہے، ان فلموں میں بازی، جال، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، منیم جی اور پیاسا وغیرہ شامل ہیں۔

ساحر کی دوسری سب سے تخلیقی شراکت روشن کے ساتھ تھی، خصوصاً فلم 'برسات کی رات' کے گانوں نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس فلم کا گانا 'زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات' سال کا مقبول ترین نغمہ قرار پایا۔

اس کے علاوہ اسی فلم کی قوالی، نہ تو کارواں کی تلاش ہے نہ تو ہمسفرکی تلاش ہے، آج بھی فلمی دنیا کی سب سے مقبول قوالی سمجھی جاتی ہے۔

ساحر نے کئی دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا جن میں: ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی، نیلے گگن کے تلے، چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو، میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی، میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں، دامن میں داغ لگا بیٹھے، ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں، میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا اور رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی جیسے مقبول گیت شامل ہیں۔

گرودت کی 'پیاسا' اور یش راج کی 'کبھی کبھی' کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔

کبھی کبھی کے گیت کون بھول سکتا ہے جیسے 'کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے یا میں پل دو پل کا شاعر ہوں'۔

انھوں نے اپنی فنی زندگی میں دوبار فلم فیئر ایوارڈ جیتے، جس میں پہلا 1964 میں فلم 'تاج محل' کے گیت 'جو وعدہ کیا وہ بنھانا پڑے گا' اور دوسرا 'کبھی کبھی کی شاعری' پر 1977 میں اپنے نام کیا۔

لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ساحر پل دو پل کے شاعر نہیں تھے اور انہوں نے جو کچھ کہا وہ کارِ زیاں نہیں تھا۔

اس لیے 30 برس گزر جانے کے باوجود ان کے نغمے آج بھی عوام کے درمیان مقبول ہیں، 25 اکتوبر 1980 کو اس البیلے شاعر کا ممبئی میں انتقال ہوا۔

ساحر نے دنیا کو اور کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو خواب ضرور دیے ہیں، وہ خواب جو بڑی تبدیلی کا باعث ہوتے ہیں۔

خواب اگر مرجائیں تو دنیا ایک بے کیف اور بنجر ویرانے میں تبدیل ہوجائے ساحر لدھیانوی ہمیں جس صبح کی امید دلاتا رہا وہ صبح ابھی آئی تو نہیں لیکن آئے گی ضرور۔

تبصرے (0) بند ہیں