لولی وڈ کے کلاسیک ہیرو

لولی وڈ کے کلاسیک ہیرو

سعدیہ امین اور فیصل ظفر

لولی وڈ کا قیام پاکستان کی تشکیل کے بعد ہی عمل میں آگیا تھا تاہم 50 سے 80 کی دہائی تک کا دور پاکستانی سینما کا سنہرا ترین وقت قرار دیا جاتا ہے جس میں بہترین اداکار یا ہیروز کی کمی نہیں تھی یعنی وحیدر مراد سے لے کر شاہد حمید تک۔

اسی دور میں پاکستان کی کامیاب ترین فلمیں تیار ہوئیں جنھوں نے بولی وڈ فلموں کا سحر پاکستانی شائقین پر چلنے نہیں دیا خاص طور پر پاکستانی ہیرو انڈین اداکاروں کے مقابلے میں زیادہ وجیہہ اور اداکاری میں منفرد ثابت ہوئے اور ان میں سے چند بہترین کا انتخاب آپ کو اس وقت کی سنہری یادوں میں لے جائے گا۔


علاؤ الدین


گول گپے والا آیا گول گپے لایا جیسے گانے کو اپنی اداکاری سے لافانی بنا دینے والے نامور ورسٹائل ایکٹر علاﺅالدین کی پیدائش راولپنڈی میں ہوئی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ بمبئی چلے گئے جہاں 1942 میں 'سنجوگ' نامی فلم میں اداکاری کرکے اپنے فنی کریئر کا آغاز کیا، تاہم انہیں اصل شہرت ہندوستانی فلم 'میلہ' سے ملی، جس میں انھوں نے دلیپ کمار اور نرگس کے ساتھ اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان بننے کے بعد انھوں نے لولی وڈ کی پہلی پنجابی فلم 'پھیرے' میں ولن کا کردار ادا کیا جو یادگار بن گیا۔ اس کے بعد علاﺅ الدین کی بطور ولن کئی پنجابی فلمیں سپر ہٹ ہوئیں، جن میں پتن، شہری بابو اور پاٹے خان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ تاہم 1957 میں اردو فلم 'آس پاس' کی کامیابی کے بعد علاﺅالدین ایک ایسے فنکار کے روپ میں سامنے آئے جس کے لئے فلموں میں خصوصی کردار تحریر کئے جانے لگے۔ جس کی مثال راز، آدمی، بھروسہ، نیند، کوئل، جھومر، سسرال اور بنجارن جیسی یادگار فلموں میں علاﺅ الدین کے غیر روایتی کردار ہیں۔

پنجابی فلم 'کرتار سنگھ' وہ پہلی فلم تھی جس میں علاﺅالدین نے بطور ہیرو کام کیا، یہ فلم انتہائی کامیاب رہی اور علاﺅ الدین بام عروج پر پہنچ گئے۔ فلم بدنام میں علاﺅ الدین کا مکالمہ (کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے، کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے) تو پاکستانی فلمی صنعت میں کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔

انہوں نے اپنی اعلیٰ پرفارمنس سے کئی کرداروں کو امر کر دیا، تیس مار خان، ہڈ حرام، پھنے خان، ان پڑھ، نظام لوہار اور فرنگی جیسی فلموں میں لازوال کردار ان کی انمٹ فنکارانہ صلاحیتوں کا ثبوت ہیں۔ انھوں نے 319 فلموں میں کام کیا، جن میں سے 194 اردو اور 125 پنجابی تھیں، تیرہ مئی 1983 کو علاؤالدین کا لاہور میں انتقال ہوا۔


درپن


پاکستان فلم انڈسٹری کے خوبرو ہیرو درپن 1928 کو اترپردیش میں پیدا ہوئے، عشرت عباس المعروف اداکار درپن کا تعلق پاکستان کی معروف سنتوش فیملی سے تھا۔ مردانہ وجاہت، گہری نیلی شرارتی آنکھیں، شہزادوں جیسا قد و قامت، بڑی بڑی فلمی پریوں کا حسن ان کے سامنے ماند نظر آتا تھا۔

وہ موسٰی رضا المعروف سنتوش کمار، ہدایتکار ایس سلیمان اور اداکار منصور کے بھائی تھے، درپن نے فلمی کریئر کا آغاز 1950 میں فلم 'امانت' سے کیا۔ پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ ممبئی چلے گئے جہاں انہوں نے فلم 'عدل جہانگیری' اور'باراتی' میں کام کیا، ممبئی میں قیام کے دوران ان کا افئیر ہندوستان کی اداکار نگار سلطانہ کے ساتھ مشہور ہوا۔

پاکستان واپسی پر انہوں نے کئی کامیاب فلموں میں کام کیا جن میں ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی بطور ہیرو آخری کامیاب فلم 'پائل کی جھنکار' 1966 میں ریلیز ہوئی تھی جس کے بعد انہوں نے کریکٹر اور سپورٹنگ رول بھی ادا کئے۔

درپن نے اپنے وقت کی حسین اور مقبول ہیروئین نیئر سلطانہ کو اپنا جیون ساتھی بنایا اور یہ ساتھ مرتے دم تک قائم رہا، اس خوبرو اداکار کا انتقال آٹھ نومبر 1980 میں طویل بیماری کے باعث لاہور میں ہوا۔


کمال


پاکستان کے ساٹھ اور ستر کی دہائی کے کامیاب اداکار سید کمال کا جنم ہندوستان کے شہر میرٹھ میں ہوا جہاں سے 1957 میں وہ پاکستان آگئے، پاکستان آ کر انہوں نے اگلے ہی سال اپنی پہلی فلم ’ٹھنڈی سڑک‘ بنائی، انہیں پاکستان کے پہلے کامیڈی ہیرو کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

سید کمال کی شکل و صورت ہندوستان کے نامور اداکار راج کپور سے کافی مشابہت رکھتی تھی اس لیے انہیں پاکستان کا راج کپور بھی کہا جاتا تھا۔ انہوں نے سویرا، سہاگن، آشیانہ، دال میں کالا، باپو، اپنا پرایا، ایاز اور مراد سمیت 200 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ وہ اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹراور پروڈیوسر بھی تھے۔

ان کی ڈائریکٹ کی ہوئی فلموں میں شہنائی، انسان اور گدھا، ،ہنی مون، دوسری ماں، درد دل اور جوکر قابل ذکر ہیں۔ 1967 میں فلم ’بہن بھائی‘ کیلئے انہیں نگار ایورڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلموں سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے ٹی وی کا رخ کیا اور مختلف ڈراموں میں کئی یاد گار کردار ادا کئے۔

صحت کی خرابی کے باعث وہ کافی عرصے تک شوبز کی دنیا سے دور رہے اور طویل علالت کے بعد پچھتر برس کی عمر میں یکم اکتوبر 2009 کو کراچی میں انتقال کرگئے اور یوں منفرد اداکاری کا ایک حسین باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔


محمد علی


پاکستان کے معروف اداکار محمد علی انیس اپریل 1931 کو ہندوستان کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے اور تقسیم برصغیر کے بعد انہوں نے پاکستان آ کر اپنی فنی خدمات کا آغاز کیا۔ انہوں نے ابتداء میں اپنے کریئر کا آ غاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا۔ ان کی بھرپور آواز نے انہیں ایک بہترین براڈکاسٹر کی حیثیت سے منوایا اور انہیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔

محمد علی نے 1962 میں فِلم 'چراغ جلتا رہا' سے بطور ولن فلمی کریئر کا آغاز کیا اور شروع کی چند فلموں میں منفی کردار نبھائے، بطور ہیرو ان کی پہلی فلم 'شرارت' تھی تاہم انہیں شہرت ملنے کا آغاز 1964 میں ریلیز ہونے والی فلم 'خاموش رہو' سے ہوا،اسی فلم پر انھوں نے بطور معاون اداکار پہلا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ تاہم بطور ہیرو ان کی پہلی معروف فلم 'کنیز' تھی جس پر انھوں نے بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا، جبکہ 1966 میں فلم 'آگ کا دریا' نے انہیں سپر اسٹار بنا دیا، جس کے بعد انہیں نے وہ عروج حاصل کیا جو بہت کم اداکار اپنی زندگی میں دیکھ سکے۔

انہیں شہنشاہ جذبات کا خطاب بھی دیا گیا اور ان کی فلمیں صاعقہ، وحشی، آس، آئینہ اور صورت، انسان اور آدمی سمیت حیدر علی ایسی فلمیں ہیں جن میں ان کی اداکاری عروج پر رہی۔ محمد علی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کا شمار ایشیاء کے 25 بہترین اداکاروں کی فہرست میں ہوتا ہے۔ محمد علی نے 275 سے زائد اردو، پنجابی، پشتو، ہندی اور بنگالی فلموں میں کام کیا۔

وہ پاکستان کے واحد فلمی اداکار ہیں جنھیں حکومت پاکستان نے تمغۂ امتیاز سے نوازا، جبکہ انہیں 1984 میں تمغۂ حسن کارکردگی کا اعزاز بھی دیا گیا۔ مجموعی طور پر 10 نگار ایوارڈ جیتنے والے محمد علی کو ہندوستان کی جانب سے نوشاد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ انیس مارچ 2006 کو گردوں کی بیماری کے باعث لاہور میں ان کا انتقال ہوا، تاہم ان کی لازوال اداکاری کے نقوش آج بھی عوام کے دلوں میں نقش ہیں۔


رنگیلا


پاکستانی فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ اداکار رنگیلا 1941 میں پیدا ہوئے، رنگیلا کا اصل نام محمد سعید خان تھا، عملی زندگی کا آغاز باڈی بلڈنگ سے کیا۔ اس عظیم فنکار نے شروع میں کئی فلموں کے بورڈ تک بھی پینٹ کئے اور پھر اسٹیج کی راہ اختیار کرلی۔ اپنے فلمی کریئر کا آغاز انہوں نے 1958میں فلم 'جٹی' سے کیا جس میں انہوں نے اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔

1969 میں ریلیز ہونے والی فلم 'دیا اور طوفان' میں بہترین مزاحیہ اداکاری کے ساتھ ساتھ بطور رائٹر، گلوکار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے طور پر عوام کے سامنے آئے اور اپنی قابلیت منوائی۔ رنگیلا پروڈکشن کے بینر تلے انہوں نے متعدد فلمیں بنائیں، ان کی مشہور فلموں میں رنگیلا، دل اور دنیا، کبڑا عاشق، عورت راج، پردے میں رہنے دو، ایماندار، بے ایمان، انسان اور گدھا اور دو رنگیلے شامل ہیں۔

رنگیلا نے فلموں کے عام کامیڈین سے ہیرو شپ تک کا سفر انتھک محنت اور خداداد صلاحیتوں کے بل پر طے کیا، پردہ اسکرین پر رنگیلا اور منور ظریف کی آمد فلم بینوں میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھی۔ انہوں نے اپنے دور کی تمام ہیروئینوں کے مقابل مرکزی کردار ادا کئے، رنگیلا کو بہترین اداکاری اور دیگر شعبوں میں شاندار کارکردگی پر 9 مرتبہ نگار ایوارڈ ملے۔

1991 میں رنگیلا نے جگر اور گردے کے عارضے میں مبتلا رہنے کے باعث فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پھر 24 مئی 2005 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، رنگیلا کا ہر رنگ نرالا اور انداز جداگانہ تھا۔ انہوں نے لوگوں میں بے شمار خوشیاں بانٹیں جس کے بدلے میں وہ انہیں کبھی بھلا نہ پائیں گے۔


منور ظریف


پاکستانی فلمی دنیا کے شہنشاہ ظرافت اور اپنی بے ساختہ اداکاری سے شائقین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دینے والے منور ظریف دو فروری 1940 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے، مزاح کا فن انہیں وراثت میں ملا تھا۔ انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز 1961 میں ریلیز ہونیوالی فلم 'ڈنڈیاں' سے کیا، جس کے بعد ان کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔

تاہم 1973 میں وہ پہلی بار اردو فلم 'پردے میں رہنے دو' میں سائیڈ ہیرو کے روپ میں سامنے آئے اور اسی سال ایک اور فلم 'رنگیلا اور منور ظریف' کی کامیابی نے انہیں سپر اسٹار بنا دیا۔ مگر ان کے کریئر کی لازوال فلم 'بنارسی ٹھگ' رہی، جس میں منور ظریف نے مختلف گیٹ اپ کئے اور اپنے ورسٹائل اداکار ہونے کی مہر ثبت کردی۔

ہیرو کے طور پر ان کی قابل ذکر فلموں اج دا مہینوال، جیرابلیڈ، شریف بدمعاش، بنارسی ٹھگ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، رنگیلا عاشق اور دوسری کئی فلمیں شامل ہیں۔ جبکہ 1971، 1973 اور 1975 میں انہیں عشق دیوانہ، بہارو پھول برساﺅ اور زینت میں بہترین مزاحیہ اداکاری پر نگار ایوارڈ دیئے گئے۔

ان کے بعد کامیڈی فلموں کا ایک نیا دور شروع ہوا اور انہی کے قدم پر چل کر علی اعجاز ، ننھا اور عمر شریف وغیرہ نے اسکرین پر کئی عرصے تک راج کیا۔ "رنگیلا" اور "منور ظریف" کی فلمی جوڑی کو فلم کی کامیابی تصور کیا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنے بیس سالہ کریئر میں 325 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ عظیم فنکار اپنے عروج کے دوران 29 اپریل 1976 کو دل کا دورہ پڑ جانے کی وجہ سے جہان فانی سے کوچ کرگیا۔


سنتوش کمار


پاکستانی فلم انڈسٹری کے تاریخ ساز ہیرو سید موسیٰ رضا المعروف سنتوش کمار پچیس دسمبر 1925 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے پہلے سپر اسٹار ہیرو نے قیام پاکستان سے قبل 1947 میں ہندوستان میں پہلی فلم میں کام کیا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آگئے اور 1950 میں پہلی پنجابی فلم 'بیلی' میں جلوہ گر ہوئے۔ اسی سال انہوں نے پاکستان کی پہلی اردو سلور جوبلی فلم 'دو آنسو' میں ہیرو کا تاریخ ساز کردار ادا کیا۔

تاہم 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم 'سات لاکھ اور وعدہ' نے سنتوش کمار کو پاکستانی فلمی صنعت کا پہلا سپر اسٹار بنا دیا۔ سن پچاس کے عشرے میں صبیحہ خانم اور سنتوش کمار کی جوڑی سپرہٹ قرار پائی اور غلام ، رات کی بات، قاتل، انتقام، حمیدہ، سرفروش، عشقِ لیلیٰ، وعدہ، سردار، سات لاکھ، حسرت، مکھڑا، دربار وغیرہ انتہائی کامیاب ثابت ہوئیں۔

فلم 'وعدہ اور سات لاکھ' کی شوٹنگ کے دوران صبیحہ خانم اور سنتوش کمار ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے اور بالآخر دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے، سنتوش کمار پہلے ہی شادی شدہ تھے اور آخری دم تک ان کی دونوں شادیاں قائم رہیں۔ پاکستان کا پہلا نگار ایوارڈ بھی فلم 'وعدہ' کیلئے سنتوش کے حصے میں آیا جو انھوں نے فلم وعدہ میں حاصل کیا۔

سنتوش اپنے دور کے ایک اور معروف ہیرو درپن اور فلم ڈائریکٹر سید سلیمان کے بھائی تھے۔ 1950 سے 1982 تک 86 فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والا پاکستان کا یہ تاریخ ساز فنکار گیارہ جون 1982 کو چھپن سال کی عمر میں انتقال کر گیا تاہم سنتوش کمار کا فن اور اعزازات ہمیشہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا حصہ رہیں گے۔


سدھیر


پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کا خطاب پانے والے شاہ زمان المعروف سدھیر زندہ دلوں کے شہر لاہور میں 1922 کو پیدا ہوئے، وہ پاکستان فلم انڈسٹری کے معماروں میں شامل تھے۔ معاملہ فہم اور درد مند انسان ہونے کے باعث انہیں فلم انڈسٹری میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگ انہیں لالہ سدھیر کہہ کر پکارتے تھے، وہ اداکاروں کی تنظیم کے چیئرمین بھی رہے۔

قیام پاکستان کے بعد سدھیر کی پہلی فلم 'ہچکولے' تھی، اسی دور میں ان کی فلم 'دوپٹہ' مقبول ہوئی، جس میں وہ نورجہاں اور اجے کمار کے مقابل جلوہ گر ہوئے جبکہ 1956 میں فلم 'ماہی منڈا اور یکے والی' نے سدھیر کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ اس دور کی ہیروئین شمی کو سدھیر نے اپنا شریکِ حیات بنایا۔

لالہ سدھیر کو جنگ و جدل پر مبنی فلموں میں بہترین پرفارمنس پر جنگجو ہیرو کا خطاب بھی دیا گیا۔ سدھیر نے 200 سے زائد فلموں میں اپنے وقت کی معروف ہیروئینوں کے مقابل مختلف کردار کئے، جن میں نورجہاں، صبیحہ خانم، مسرت نذیر، یاسمین، آشا بھوسلے، لیلیٰ، راگنی، زیبا، دیبا، شمیم آرا، ریحانہ، نیئر سلطانہ، حسنہ، نیلو، نجمہ، فردوس، نغمہ، سلونی، شیریں، بہار بیگم اور رانی نمایاں ہیں۔

ان کی مقبول فلموں میں دوپٹہ، سسی، کرتار سنگھ، بغاوت، یکے والی، جی دار، حکومت، چاچا خوامخواہ، ڈاچی، ماں پتر، ابا جی، چٹان، جانی دشمن، لاٹری اور ان داتا شامل ہیں۔ انہیں 1970 میں پنجابی فلم 'ماں پتر' اور 1974 میں ایک اور پنجابی فلم 'لاٹری' پر بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ دیا گیا۔ لالہ سدھیر 19 جنوری 1997 میں اس جہاں فانی سے رخصت ہوگئے۔


سلطان راہی


پاکستانی فلم انڈسٹری کے ایکشن ہیرو سلطان راہی کا اصل نام سلطان محمد تھا اور ان کی پیدائش 1938 میں ہندوستان کے شہر سہارن پور میں ہوئی، جہاں سے وہ پاکستان ہجرت کرکے آئے۔ انہوں نے 1956 میں اپنے فنی کریئر کا آغاز کیا تاہم طویل عرصے تک ثانوی کردار کرتے رہے۔

یہ ان کا دور جدوجہد تھا جو 1970 تک چلا، پھر فلم 'بشیرا' اور 1975 میں 'وحشی جٹ' نے ان کی بقیہ زندگی کا راستہ متعین کردیا، 1978 میں ریلیز ہونے والی فلم 'مولا جٹ' نے انہیں عروج کی ان بلندیوں پر پہنچا دیا جس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اسی کے عشرے کی فلموں میں سلطان راہی ہاتھ میں گنڈاسا پکڑ کر دشمنوں سے لڑتے رہے۔

سلطان راہی پنجابی فلموں کے وہ سپرہٹ اداکار تھے جو ہیرو اور ولن دونوں روپ میں مقبول ہوئے، سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی نے کئی فلموں میں کام کیا اس دور میں دونوں اداکاروں کو کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ بیشتر فلمیں سلطان راہی کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی رہیں۔

انھوں نے 40 سالہ کریئر میں 800 سے زائد فلموں میں کام کیا، جن میں 100 سے زائد اردو جبکہ باقی پنجابی میں تھیں۔ انھوں نے چند منفرد ریکارڈز بھی بنائے مثال کے طور پر وہ واحد اداکار ہیں جنھوں نے 500 سے زائد فلموں میں ہیرو کا کردار کیا اور 100 سے زائد فلموں میں ولن آئے۔ نو جنوری 1996 کی رات جب سلطان راہی کو نامعلوم لٹیروں نے قتل کر ڈالا تو وہ پاکستان کے مصروف ترین اداکار اور ان کی 54 فلمیں زیر تکمیل تھیں۔


وحید مراد


دو اکتوبر 1938 کو کراچی میں پیدا ہونے والے وحید مراد کو 'چاکلیٹی ہیرو' اور 'لیڈی کلر' کے القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ ہیرو بھی تھے تو پروڈیوسر بھی اور ساتھ میں اسکرپٹ بھی لکھتے تھے۔ 'ہیرا اور پتھر' وحید مراد کی پہلی فلم تھی جس میں انہوں نے بطور ہیرو کام کیا اور اس فلم کے لیے انہیں 'نگار ایوارڈ' بھی ملا۔

جس کے بعد تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی اور ایک کے بعد ایک سپر ہٹ فلم ان کا مقدر بنتی چلی گئی۔ اداکار نے فلم آرٹس کے نام سے ایک فلمی ادارہ بھی بنایا جس کے بینر تلے دوراہا، احسان، دیور بھابی اور دل میرا دھڑکن تیری جیسی سپر ہٹ فلمیں بنائی گئیں جبکہ پاکستان کی پہلی پلاٹینیم جوبلی فلم 'ارمان' بھی وحید مراد کے ادارے کے تحت بنائی گئی تھی۔

اس فلم نے باکس آفس کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے، اس فلم کے مشہور ہونے والے گانوں میں 'کو کو رینا، اکیلے نہ جانا، بیتاب ہو ادھر تم اور زندگی اپنی تھی اب تک' شامل ہیں۔ برصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وہ دوسرے اداکار تھے جو نوجوان نسل میں بےحد مقبول ہوئے۔ وحید کو اس زمانے کی تمام نامور ہیروئینوں کے ساتھ کام کرنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔

1980 میں وحید کا ایکسیڈنٹ ہوا، جس سے ان کا چہرہ شدید زخمی ہوا اور پلاسٹک سرجری کرانی پڑی۔ اس کے بعد فلموں میں ہونے والی ناکامی نے وحید مراد کو دلبرداشتہ کر دیا اور 23 نومبر 1983 کی صبح فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔ رومانوی سین اور گیت پکچرائز کروانے کا وحید مراد کا انداز آج بھی انہیں منفرد رکھے ہوئے ہے اور وہ اپنے پرستاروں کے دل میں آج بھی راج کرتے ہیں۔

نومبر 2010 میں وحید مراد کو گزرے ہوئے ستائیس سال بعد پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے وحید مراد کو 'ستارۂ امتیاز' سے نوازا جبکہ زندگی میں ان کو شاندار اداکاری پر 27 بار مختلف اعزازات سے نوازا گیا، ارمان کے علاوہ انجمن، عندلیب، آواز اور پنجابی فلم مستانہ ماہی سمیت درجنوں ایسی فلمیں ہیں جنہیں فلم بین آج بھی نہیں بھولے۔


ندیم بیگ


پاکستان فلم انڈسٹری میں اداکاری میں ٹرینڈ سیٹ کرنے والے مقبول ترین اداکار ندیم بیگ 19 جولائی 1941 کو آندھرا پردیش کے شہر وجے واڑا میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام نذیر بیگ ہے جبکہ وہ فلم انڈسٹری میں گلوکار بننے آئے تھے۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ باقاعدہ گلوکار تو نہ بن سکے، لیکن پاکستانی فلموں کے ایسے ہیرو بن گئے جن کی ضرورت ہر ہدایت کار کو محسوس ہونے لگی۔

فلم 'چکوری' سے کریئر کا آغاز کرنے والے ندیم کے قدم کامیابی نے ایسے چومے کہ وہ ہر دل کی دھڑکن بن گئے، ہدایت کار اسلم ڈار کی مقبول ترین فلم 'دل لگی' ندیم کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ ندیم نے کئی اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا لیکن ان کی جوڑی شبنم کے ساتھ مقبول ہوئی۔ اپنے طویل فلمی کریئر کے دوران ندیم نے 200 سے زائد فلموں میں کام کیا اور کئی طرح کے کردار کیے۔

1974 میں ریلیز ہونے والی فلم 'آئینہ' ندیم کے کریئر کی کامیاب ترین فلم تھی جس نے کراچی سرکٹ میں چار سو ایک ہفتے نمائش کے ساتھ ریکارڈ قائم کیا۔ ان کی لازوال اور سپرہٹ فلموں میں اناڑی، پہچان، لاجواب اور قربانی، دہلیز، سہرے کے پھول، جب جب پھول کھلے، زندگی، بھول ان کی سمیت دیگر فلمیں شامل ہیں۔

فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد دل برداشتہ ہو کر اسے سے دور ہوجانے کے بعد ندیم نے ٹیلی وژن کے ڈراموں میں بھی اداکاری کی۔ ندیم کو بہترین کارکردگی پر ہلال امتیاز، ستارۂ امتیاز اور نگار ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔


شاہد حمید


اداکار شاہد ستر اور اسی کی دہائی میں پاکستان فلم انڈسٹری کے مصروف ترین اداکار تھے، انہوں نے تقریباً تین سو فلموں میں کام کیا۔ اداکار شاہد کا اصل نام شاہد حمید ہے اور وہ چوبیس جولائی 1950 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور 1970 میں عباس نوشہ نے اپنی فلم 'ایک رات' میں شاہد کو پہلی بار کاسٹ کیا جس کی ہیروئین دیبا تھیں۔

اس کے فوراً بعد ہدایتکار ایس اے بخاری نے اپنی فلم 'آنسو' میں بطور ولن انہیں کاسٹ کر لیا جس میں مرکزی کردار ندیم اور فردوس کر رہے تھے۔ دونوں فلمیں کامیاب ہوئیں اور شاہد کے لیے بھی کامیابی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ انہوں نے شبنم، رانی، نشو، سنگیتا، بابرہ شریف، دیبا سمیت اپنے دور کی تقریباً ہر ہیروئین کے ساتھ کام کیا۔

1972 میں ریلیز ہونے والی فلم 'امراﺅ جان ادا' شاہد کی سپرہٹ فلموں میں شمار ہوتی ہے، اس کے علاوہ ان کی مشہور فلموں میں ثریا بھوپالی، تہذیب، طلاق، بہاروں کی منزل، ابھی تو میں جوان ہوں، میرے حضور، شمع محبت، اف یہ بیویاں، شکار، شبانہ، آبشار، دل نے پھر یاد کیا، میں بنی دلہن، دیدار، پیاسا، دیکھا جائے گا، گھرانہ، پیار کا وعدہ، نوکر ووہٹی دا، ٹھاہ، دہشت خان، جادو، مرزا جٹ اور دیگر شامل ہیں۔

شاہد کی شادی اپنے خاندان میں منزہ نامی عورت سے ہوئی لیکن وہ شادی کے بعد بھی اسکینڈلز کے الزامات کی زد میں رہے۔ شاہد کو ان کے فن پر متعدد ایوارڈ سے نوازا گیا، سید نور کی فلم 'محافظ' پر انہیں گریجویٹ ایوارڈ دیا گیا اس کے علاوہ کینیڈا سے بھی ایوارڈ حاصل کرنے کا انہیں اعزاز حاصل ہے۔