پکوان کہانی : میٹھے کی تھالی

31 اکتوبر 2014
کسی بھی قسم کی خوشی کا جشن اس وقت تک نامکمل سمجھا جاتا ہے جب تک لڈو کا ٹوکرا اس کا حصہ نہ ہو۔
کسی بھی قسم کی خوشی کا جشن اس وقت تک نامکمل سمجھا جاتا ہے جب تک لڈو کا ٹوکرا اس کا حصہ نہ ہو۔

بیسن کی مٹھائی سے لے کر موتی چور کے لڈو تک، رسیلے گلاب جامن، تہہ دار ناریل کی مٹھائی، پیڑہ و برفی، ہم سب اپنی مٹھائیوں سب محبت کرتے ہیں۔

اپنی طرف لبھانے والی یہ مٹحائیاں اس وقت میر طرف آئیں جب میں عمر اور ذہن کے لحاظ سے باشعور ہوچکی تھی اور بحیرہ عرب کے پانیوں ے دور جاچکی تھی، میں بتا نہیں سکتی کہ نوے کی دہائی میں مجھے سونی سویٹس، سن شائن، گلشن سویٹس اور عبدالخالق کی یاد کس طرح ستاتی تھی۔

آکسفورڈ ڈکشنری میں لڈو لفظ کی تفصیل میں اسے ایک انڈین شیرینی قرار دیا گیا ہے جو آٹے، چینی اور گھی وغیرہ کو ملا کر ایک گیند کی شکل میں تیار کی جاتی ہے۔

اس مکمل انگریزی وضاحت سے ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ لڈو ایک تاریخی مٹھائی ہے جو صدیوں پہلے چندر کپت موریہ کے عہد بھی موجود تھی جیسا کہ مقبول دعویٰ کیا جاتا ہے۔

میری تحقیق مجھے یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ آٹے، چینی اورگھی کے امتزاج سے بنی یہ مٹھائی ہمیشہ سے برصغیر کے لوگوں کو دستیاب رہی ہے، یہاں سے ہوسکتاہ ے کہ ان تینوں اشیاءکے اس امتزاج سے گول لڈو کو تیار کیا گیا ہو۔

مائیکل کروندی اپنی کتاب سویٹ انوینشن: اے ہسٹری آف ڈیزرٹس میں لکھتے ہیں، مدوکا کو بھاپ یا چاول کے آٹے کے ساتھ تلا جاتا تھا جس میں چینی اور ناریل کا مکسچر شامل کیا جاتا تھا۔

متعدد روایات میں سے ایک میں بتایا گیا ہے کہ بچپن میں کرشنا کو کس طرح ہاتھی بھگوان نے اس میٹھے سے متعارف کرایا، واضح طور پر کرشنا کی ماں نے گنیش کی مورتی کے سامنے مدوکا رکھا اور اپنے ننھے شیطان کی چوری کے طریقوں سے بخوبی ماں نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں کو اس کی پشت پر باندھ دیا تاکہ مدوکا محفوظ رہ سکے، نیک دل گنیش نے کچھ بھی نہیں کیا۔

پھر اس بت میں زندگی آگئی اور اس نے اپنے سامنے رکھی مٹھائی کو اٹھا کر بچے کے منہ میں رکھ دی یا کچھ روایات کے مطابق گنیش نے کرشنا کو جو دیا وہ ایک لڈو تھا، اس کنفیوژن کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی سنسکرت میں مدوکا کی اصطلاح اس مٹھائی کے لیے استعمال کی جاتی تھی جسے آج لڈو کہا جاتا ہے، ہندوستان کے دو مخالف کونوں یعنی راجھستان اور آندھراپردیش میں لڈو گنیش کی مورتی کے سامنے رکھنا عام چلن ہے۔

پاکستان میں لڈو کسی بھی خوشی کی تقریب کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں پیدائش، شادی، گریجویشن وغیرہ کے موقع پر لڈوﺅں کے ذریعے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے، الغرض کہ کسی بھی قسم کی خوشی کا جشن اس وقت تک نامکمل سمجھا جاتا ہے جب تک لڈو کا ٹوکرا اس کا حصہ نہ ہو، لگ بھگ تمام تر پرمسرت مواقعوں کو زدر لڈو کو چک کر خوش آمدید کہا جاتا ہے، اس مسرت کی وضاحت ان الفاظ سے بھی کی جاسکتی ہے: دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔

بیسن کے لڈو کی تیاری کی جو ترکیب میں دیوالی کے موقع پر شیئر کررہی ہوں وہ میری دوست انامیکا تارا سے میرے پاس آئی ہے جو دہلی کی رہائشی ہے۔

یہ انتہائی مزیدار بھربھرے لڈو ہوتے ہیں جن میں مناسب مقدار میں مٹھاس شامل ہوتی ہے اور چائے کے ایک کپ کے ساتھ ان کا امتزاج مثالی ہوتا ہے۔

میں انہیں تیار کرنے کے بعد کچھ روز کے وقفے کے بعد لوگوں کو پیش کرنے کو ترجیح دوں گی جب تمام تر اجزا ایک دوسرے سے مل کر مضبوط ذائقہ پیدا کردیتے ہیں۔

بیسن کے لڈو

اجزا (اٹھارہ سے بیس لڈوﺅں کے لیے)####

بیسن 5 ¼ کپ

گھی ڈھائی کپ

آدھا کپ بالائی والا دودھ

پسی ہوئی چینی دو کپ

پندرہ سے بیس سبز الائچیاں یا ان کا پاﺅڈر

سجاوٹ کے لیے پندرہ سے بیس بادام

طریقہ کار####

گھی اور بیسن کو برتن میں ڈال کر دس منٹ تک درمیانی سے ہلکی حرارت پر پکائے اور اس دوران انہیں مسلسل بھونتے رہیں۔

پھر اس میں دودھ شامل کریں اور مزید دس منٹ تک پکائیں۔

چولہا بند کرکے اس میں چینی اور سبز الائچی شامل کریں اور انہیں باہم ملادیں، اس مکسچر کو ٹھنڈا کریں اور گیند کی شکل میں تیار کردیں۔

لوگوں کے سامنے کرنے سے پہلے انہیں کٹے ہوئے باداموں کے ساتھ سجائے۔

انہیں کسی ایئرٹائٹ ڈبے میں کسی کمرے کے درجہ حرارت میں بیس روز تک لیے محفوظ کیا جاسکتا ہے، اگر موسم بہت گرم ہو تو انہیں فریج میں اسٹور کریں اور پیش کرنے سے پہلے گرم کردیں۔

ناریل کے لڈو

یہ مزیدار ترکیب میری بہن آمنہ ترمذی نقوی کے باورچی خانے سے آئی ہے، میں نے دو مواقعوں پر انہیں تیار کیا ہے اور ہر بار یہ دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوگئے۔

انہیں بنانا بہت آسان، باسہولت اور ان کا مزہ زبردست ہوتا ہے، اپنی اگلی کسی تقریب میں انہیں پیش کرنا لازمی ہٹ ثابت ہوگا۔

اجزا(سولہ سے اٹھارہ لڈوﺅں کے لیے)####

چار کپ پسا ہوا ناریل

ایک کپ گاڑھا دودھ(کنڈنسیڈ ملک)

فوڈ کلر

طریقہ کار####

پسے ہوئے ناریل کو ایک ڈونگے میں ڈالے اور اس میں کنڈنسیڈ ملک کو شامل کرکے انہیں اچھی طرح مکس کریں۔

اس کے بعد ان لڈوﺅں کو خوبصورت بنانے کے لیے ان میں فوڈ کلر کا اضافہ کریں۔

ان لڈوﺅں کو گولف کی گیندوں کے سائز کے مطابق تیار کریں، فریج میں اسٹور کردیں اور پیش کرنے سے پہلے آدھے گھنٹے تک کمرے کے عام درجہ حرارت میں آدھے گھنٹے تک رکھیں۔

سوجی کا حلوہ

لفظ حلوے کی جڑیں عربی زبان سے نکلتی ہیں اور متعدد اسے تہہ دار میٹھا قرار دیتے ہیں۔

بنیادی طور پر حلوہ آٹے کی مصنوعات سے تیار کیا گیا ہو یا اس میں کئی طرح کے میوے چینی، دودھ اور مکھن وغیرہ کا استعمال ہو یہ ایک لیس دار میٹھا پکوان ہے، یا سخت میوہ جات پر مشتمل میٹھا، عام طور پر مانا جاتا ہے کہ اس طرح کا حلوہ ہندوستان میں مغل سلطنت کے عہد کے دوران مشرق وسطیٰ اور ایشیائے کوچک سے آنے والے افراد نے متعارف کرایا تھا۔

سویٹ انوینشن نامی کتاب میں درج ہے:

انڈین حلوے کی بنیادی بلاشبہ مشرق وسطیٰ میں پڑی، اس کا نام عربی ہے(حلوہ، یعنی میٹھی غذا)، مشرق وسطیٰ میں دو طرح کے حلقے پائے جاتے ہیں، ایک پرانی طرز کا جو میدے سے تیار کیا جاتا ہے اور دوسرا حال ہی میں سامنے آنے والا یعنی میوﺅں یا سیسم کے بیجوں کے پیسٹ تیار کیا جانے والا۔

سابقہ حلوہ آج کے برصغیر میں سوجی حلوہ کہلاتا ہے، جو کہ ہلکا بھربھرے کیک کی طرح ہوتا ہے اور اسے گھی میں سوچی اور شیرینی کو شام کرکے بنایا جاتا ہے، مغل عہد کی اسے بنانے کی ایک ترکیت میں اس میں میدے، گھی اور چینی کے یکساں امتزاج کو شامل کرنے کا کہا گیا ہے۔

حلوے کی درجنوں اقسام موجود ہیں مگر سوجی کے حلوے کو سب پر بالادستی حاصل ہے، یہ مزیدار، فوری تیار ہونے والے برصغیر کے ہر گھرانے کا پسندیدہ پکوان ہے، اس کو بنانے کی جو ترکیب میں آج شیئر کررہی ہوں وہ میری پیاری والدہ کے باورچی خانے سے آئی ہے، جو اب میرے کچھ سے آپ تک پہنچ رہی ہے۔

اجزا####

ڈیڑھ کپ سوجی

آدھا کپ گھی

آدھا کپ کٹے ہوئے بادام اور کشمش

تین کپ گرم پانی

آدھا کپ فل کریم دودھ

آدھا کپ چینی

پانچ سے دس سبز الائچیاں

طریقہ کار####

گھی کو گرم کریں اور پھر اس میں سوجی کو شامل کردیں، انہیں اس وقت تک بھونے جب تک ان کا رنگ سنہرا نہ ہوجائے اور پھر اس میں بادام اور کشمش شامل کرلیں۔

ایک علیحدہ برتن میں ابلے ہوئے دودھ، پانی، چینی اور الائچیوں کو شامل کریں۔

اس سیال مکسچر کو سوجی میں شامل کریں اور پورا وقت بھونتے رہیں، اسے درمیانی سے ہلکی آنچ پر اس وقت تک پکائیں جب تک حلوہ برتن پر چپکنے نہ لگے اور اس گاڑھا نہ ہوجائے، پھر اسے گرما گرم ہی مہمانوں کے سامنے پیش کریں۔

دیوالی مبارک

انگریزی میں پڑھیں۔


تمام تصاویر فواد احمد کی ہیں۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں