سیاستدانوں کی تربیت

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2014
قوانین و ضوابط سے عدم واقفیت سیاستدانوں کی بڑی اکثریت کو بیوروکریٹس کے مشوروں کا محتاج بنا دیتا ہے۔
قوانین و ضوابط سے عدم واقفیت سیاستدانوں کی بڑی اکثریت کو بیوروکریٹس کے مشوروں کا محتاج بنا دیتا ہے۔

یہ پاکستانی سیاست کے گزشتہ پچاس سال کی نمایاں باتیں ہیں: ایک سیاستدان کی جانب اپنے کنٹینر کی چھت سے اپنے مخالفین کو للکارتے ہوئے مہذب زبان کے استعمال سے گریز کیا جاتا ہے، پارلیمنٹ میں اپوزیشن رہنماﺅں پر اعتراضات کرتے ہوئے ایک سیاستدان کی جانب سے بظاہر جھوٹ گھڑا جاتا ہے، وفاقی وزراءکی جانب سے اپنے مخالفین کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے اور زبانی تلخ کلامی کے دوران ایک رکن پارلیمان کی جانب سے دوسرے کو "غلیظ چوہا" کہا جاتا ہے، اس طرح کے رویے ناصرف سیاستدانوں کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں بلکہ ملک کی نوآموز سیاست پر عوامی اعتماد کو بھی ڈگمگاتی ہے۔

جب سنیئر قیادت اس طرح کے حربوں کو اختیار کرے تو نچلی صفیں بھی اس کو اپنا لیتے ہیں، تعمیراتی تنقید اور ہم آہنگی کی عدم موجودگی اس طرح کے رویوں کا ایک پہلو ہے جو کہ حالیہ سیاسی بحران کے نتیجے میں سامنے آیا ہے، سیاستدانوں کے اندر دانائی کی کمی کا معاملہ صرف لفظوں کے انتخاب تک ہی محدود نہیں، انتظامی اور ناقص طریقہ کار میں بھی وہ پیچھے نہیں۔

مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمان نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر اپنے استعفے حال ہی میں پیش کیے، جن مین سے کچھ نے اپنے استعفوں میں اسپیکر کی بجائے پارٹی چیئرمین کو مخاطت کیا، سازشی نظریات پیش کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ارادی فعل تھا مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا، درحقیقت وہ اراکین ضابطہ قوانین سے ہی واقف نہیں تھے، اس طرح کی بے خبر کسی ایک سیاسی پارٹی تک محدود نہیں بلکہ یہ ہر جماعت میں موجود ہے۔

حکومتی مشینری اور پالیسی سازی کے عمل میں شامل سیاستدانوں کا احمقانہ پن اکثر ان کے ساتھ کام کرنے والے سول سرونٹ میں مذاق کا موضوع بنتا ہے، قوانین و ضوابط سے عدم واقفیت سیاستدانوں کی بڑی اکثریت کو بیوروکریٹس کے مشوروں کا محتاج بنا دیتا ہے۔

منصفانہ انداز سے دیکھا جائے سیاستدان اس خلاءکے لیے ذمہ دار نہیں کیونکہ یہاں ایسا انفراسٹرکچر موجود نہیں جو انہیں تربیت اور زیادہ ذمہ دارانہ حکومتی پوزیشنز کے لیے تیار کرسکے، اس کے برعکس ایسے افرا جنھیں حکومت سول سرونٹس کے طور پر بھرتی کرتی ہے وہ پہلے دن سے اپنے کیرئیر کے آخر تک مسلسل ایک جامع تربیتی عمل سے گزرتے ہیں، ایک سول سرونٹ کو اپنی ملازمت میں ترقی کے لیے متعدد تربیتی کورسز کامیابی سے مکمل کرنا پڑتے ہیں، اگرچہ ان تربیتی پروگرامز کی افادیت پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اور ان میں بہتری کے مواقعے موجود ہیں مگر پھر بھی یہ کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہیں۔

اب سیاستدانوں کی اہم پوزیشنز کے سفر کا تصور کریں، عام انتخابات میں کسی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد ایک امیدوار ہفتوں میں پارلیمنٹ میں پہنچ جاتا ہے جہاں اسے کابینہ میں کوئی پوزیشن دے دی جاتی ہے جبکہ کسی مناسب تیاری کے بغیرہ وہ اس پورٹ فولیو کو سنبھالتا ہے جس کی ذمہ داری اس کے کندھے پر ڈالی جاتی ہے۔

اس صورت میں ہم کیسے اس سے توقع کرسکتے ہیں کہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے جب تربیت اور صلاحیت میں اضافے کو کسی عہدے کی ترقی کے لیے لازمی مشق تصور کیا جاتا ہے، کیا یہ سب حکومتی موورز و شیکرز کی ترجیحی فہرست میں واقعی بہت نیچے ہے؟

پاکستان میں نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی سول سرونٹس کو تربیت دینے کی ذمہ داری پوری کرتا ہے، جبکہ سیاستدان بھی پبلک سرونٹ ہوتے ہیں اور ان کی تربیت کو اسی دائرے میں لایا جانا چاہئے، تاہم سول سرونٹس کے معاملے کے برعکس سیاستدانوں کی تربیت کے خرچے کا بوجھ ٹیکس گزاروں پر نہیں ڈالا جانا چاہئے۔

اس تربیت کے مقاصد امیدواروں کے حکومت کے ساتھ کرنے والے سول سرونٹس جیسے ہی ہونے چاہئے اور اس میں مختلف تصور جیسے ریاستی رازوں، سفارتی تعلقات، پروٹوکل، مذہبی برداشت اور میڈیا کے سامنا کرنا وغیرہ کی اہمیت پر زور دیا جائے، اس سے ان کے اندر اس حقیقت کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی کہ صرف حلقے کی سیاست اور انتخابات ہی جمہوریت نہیں، درحقیقت ایسا لچکدار تختہ ہے جس میں عقیدے کے ٹوکرے کو لے جاتے ہیں۔

سیاستدانوں کی صلاحیت میں اضافے کے اقدامات ماضی میں بھی کیے گئے مگر ان تمام تر کوششوں کی گنجائش بہت محدود تھی، نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی جسے پہلے نیشنل ڈیفنس کالج کے نام سے جانا جاتا تھا، نے اراکین پارلیمان کے لیے جو تربیتی پروگرامز متعارف کرائے انہیں زیادہ کامیابی نہیں مل سکی، ایک بار عہدے پر آنے کے بعد اراکین پارلیمنٹ کے لیے اس طرح کی تربیت کے مقاصد کی سنجیدگی اور توجہ مرکوز رکھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے، سول سوسائٹی کے ادارے جیسے پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیگیسلٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی، لبرل فورم پاکستان اور عورت فاﺅنڈیشن بھی اس طرح کے تربیتی کتابچوں اور ورکشاپس کا انعقاد قانون سازوں کے لیے کیا، مگر یہ کوششیں اگرچہ قابل ستائش ہیں تاہم اس سے حکومتی سرپرستوں کی ادارہ جاتی کارکردگی پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔

اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کو چلانے کے لیے اہلیت کے حوالے سے چھ ماہ کے ذاتی سرمائے پر کورس کو مکمل کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے، یہ کہنے کی ضرورت نہیں یہ تمام تمام امیدواروں کے لیے ہونی چاہئے اور اسے پارلیمنٹ کے لیے کامیاب ہونے والے افراد تک محدود نہ رکھا جائے تاکہ طویل المعیاد بنیادوں کے لیے مہذب سیاسی کلچر کو یقینی بنایا جاسکے۔

اس طرح کی تربیت کو متعارف کراننے سے حالات فوری طور پر تبدیل نہیں ہوں گے، تبدیلی راتوں رات آنا والا طریقہ کار نہیں مگر یہ سفر کتنا بھی طویل ہو یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری سابق سرکاری ملازم ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں