ایک خطرناک تقسیم

30 اکتوبر 2014
اپنی کثیر النسلی شناخت کو قائم کرنے کے ناکام تجربے کے بعد ایم کیو ایم اب اپنی اصل سیاست کی جانب واپس لوٹ گئی ہے۔
اپنی کثیر النسلی شناخت کو قائم کرنے کے ناکام تجربے کے بعد ایم کیو ایم اب اپنی اصل سیاست کی جانب واپس لوٹ گئی ہے۔

یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ آخر کیوں ایم کیو ایم کو اکثر پاکستانی سیاست میں زحمت یا خجالت کا سبب قرار دیا جاتا ہے، اس جماعت نے ایک بار پھر لسانی سیاست کے بھڑوں کے چھتے کو یہ مطالبہ کرتے ہوئے چھیڑا ہے کہ سندھ کو تقسیم کرکے نیا 'مہاجر' صوبہ تشکیل دیا جائے۔

اپنی کثیر النسلی شناخت کو قائم کرنے کے ناکام تجربے کے بعد ایم کیو ایم اب اپنی اصل سیاست کی جانب واپس لوٹ گئی ہے۔

ایم کیو ایم ایک بار پھر مہاجر کارڈ دوبارہ کھیلنے کی طرف جارہی ہے جو کہ اس کی جانب سے اپنے سپورٹ بیس میں دوبارہ جان ڈالنے کی جان توڑ کوشش ہے جسے ابھرتی سیاسی طاقتوں سے چیلنج کا سامنا ہے، یہ محدود سیاسی سوچ خطرناک گیم ہے جس سے صوبے میں متعدد لسانی گروپس میں موجود تقسیم میں وسیع ہوسکتی ہے۔

ایم کیو ایم کی جانب سے پی پی پی رہنما خورشید شاہ کی جانب سے 'مہاجر' اصطلاح استعمال کرنے پر خلاف توہین مذہب کے قانون کے استعمال کا مطالبہ شاکنگ تھا، اس کو زیادہ حیرت انگیز امر یہ چیز بناتی ہے کہ اس میں مذہب کو سیاست میں شامل کردیا گیا ہے، حالانکہ ایم کیو ایم پاکستان ان محدود سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے جو حقیقی طور پر سیکیولر ازم کی حمایتی ہے۔

اس ناقابل فہم مہم خود ایم کیو ایم کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوگی اور یہ کراچی کے عوام میں پیدا ہونے والی بے اطمینانی سے جڑے دیگر متعلقہ مسائل سے توجہ ہٹانے کا سبب بنے گی جنھیں فوری طور پر حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔

غصے کے اظہار اور اتحادی حکومت سے علیحدگی اور پھر اپنا فیصلہ واپس لینے کی پرانی عادت پارٹی کے لیے مضحکہ اڑانے کا سبب بنتی ہے مگر اس بار علیحدگی زیادہ سنجیدہ نظر آتی ہے، اگرچہ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ پی پی پی کی سیاسی حامی یہ جماعت دوبارہ پرانے راستے پر نہیں لوٹے گی۔

صوبے کی دو طاقتور ترین سیاسی طاقتوں کے درمیان روٹھنے اور منانے کا یہ تعلق کراچی میں جاری بدامنی کی واحد وجہ نہیں، لسانی نعروں کو بلند کرکے ایم کیو ایم قیادت صرف شہری حکومت کے نظام کی دوبارہ بحالی کے مسئلے کو متاثر کررہی ہے جس پر اسے سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔

درحقیقت لسانی سیاست پی پی پی کے لیے بھی فائدہ مند ہے، اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ اس کی جانب سے دیہی علاقوں کو کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش پر سندھی قوم پرستوں کے جذبات زیادہ بھڑک اٹھے ہیں، اس سے اس وجہ کی بھی وضاحت ہوتی ہے آخر کیوں بلاول بھٹو کی جانب سے ایم کیو ایم کو ہدف بنایا گیا اور یہ نعرہ لگایا 'مرسوں مرسوں، پر سندھ نا دیسوں'، تاہم ابھی اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس تنازعے سے دیہی علاقوں میں پی پی پی زوال پذیر سیاست میں بہتری آتی ہے یا نہیں۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ لسانی بلکہ انتظامی بنیادوں پر سندھ کی تقسیم ناقابل برداشت ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت منتخب شہری حکومتی نظام کی بحالی میں ناکام ہوگئی ہے جس نے ایم کیو ایم کی لسانی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کو قوت فراہم کی ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو چھ سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے اور مقامی حکومت کی بحالی کی توقع بھی اس وقت پیدا ہوئی جب سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔

گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی نے آخرکاری سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے ترمیمی بل کی منظوری دے دی اور الیکشن کیشن آف پاکستان کو بلدیاتی انتخابات سے قبل حلقہ بندی کے اختیارات سونپ دیئے گئے۔

دو ہزار ایک کے قانون کے مقابلے میں اس نئے بل میں شہری حکومت کے اختیارات میں ظالمانہ حد تک کمی کی گئی ہے اور اس کے افعال بنیادی بلدیاتی خدمات تک ہی محدود کردی گئی ہے۔

صوبائی حکومت نے بیشتر اہم شعبے اپنے پاس ہی رکھے ہیں جیسے سیکیورٹی اور لینڈ منیجمنٹ وغیرہ، اسی طرح میٹروپولیٹن کارپوریشن کے مالیاتی اختیارات بھی محدود کیے گئے ہیں۔

صوبائی حکومت کے مضبوط کنٹرول پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان تنازع کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ایسا نظر آتا ہے کہ صوبائی حکومت مقامی سطح پر اپنے اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں خاص طور پر کراچی کے معاملے میں تو یہ بالکل درست لگتا ہے جس کی وجہ اس کا مخصوص لسانی توازن اور صوبائی دارالحکومت کی حیثیت ہے، اختیارات کو منتقل نہ کرنے کی اہم ترین وجہ شہر کے وسیع ذرائع خاص طور پر زمینوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی خواہش ہے۔

زیادہ انتظامی خودمختاری کسی بڑے شہر جیسے کراچی جس کی آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ سے دو کروڑ کے درمیان ہے، کو موثر طریقے سے چلانے کے لیے مثالی ہے ، تاہم پھر بھی منتخب مقامی حکومتی نظام کی بحالی چاہے محدود بلدیاتی اختیارات سے ہی کیوں نہ ہو، ممکنہ طور ہر کراچی اور صوبے کے دیگر اہم شہروں کو درپیش مسائل میں کمی لانے کا باعث بنے گی۔

مگر یہاں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہونے سے پہلے دیگر متعدد رکاوٹیں بھی موجود ہیں، جس میں سب سے متنازع حصہ حلقہ بندی ہے جو اب ای سی پی کی ذمہ داری ہے، اس کے علاوہ یہاں انتخابی عمل کی شفافیت کا مسئلہ بھی ہے، یعنی ایسے شہر میں جہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اس پر جرائم پیشہ مافیاز کا غلبہ ہے جن کی سرپرستی مختلف سیاسی جماعتیں کررہی ہیں، ان حالات میں آزاد و شفاف بلدیاتی انتخابات آسان ثابت نہیں ہوں گے۔

ایم کیو ایم کی علیحدہ صوبے کی مہم اور بڑھتی لسانی تقسیم نے صورتحال کو مزید تشویشناک بنادیا ہے۔

تیزی سے تبدیل ہوتے آبادی کے توازن کے باعث کراچی کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ یہاں منتخب مقامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے، کچھ رپورٹس کے مطابق شہر کی آبادی 1998 کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوچکی ہے اور یہ بے تحاشا اضافہ ملک کے دیگر حصوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے نتیجے میں ہوا ہے۔

آبادی کی بدلتی صورتحال نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے سیاسی منظرنامے کو بھی تبدیل کردیا ہے، یہ مختلف نسلی و لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کی حقیقی پناہ گاہ بن چکا ہے ، اس کے علاوہ ہم یہاں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے افراد کی تیسری نسل کو بڑا ہوتا دیکھ رہے ہیں جنھیں کوئی بمشکل ہی مہاجر کہہ سکتا ہے، ان حالات میں اس کثیرالنسلی شہر میں امتیازی سیاست تباہ کن جوا ہی ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ وہ غلطی ہے جو ایم کیو ایم نسلی سیاست کی جانب واپس جانے کی کوشش یا مذہب کو سیاسی عمل میں شامل کرکے کررہی ہے، ایم کیو ایم ہوسکتا ہے کہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہو مگر اب اسے اپنی سیاسی بقا کے سنگین ترین چیلنج کا سامنا ہے جس کے دیکھتے ہوئے ایم کیو ایم کو اپنی نسلی سیاست پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ایک مصنف اور صحافی ہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

Sharminda Oct 30, 2014 05:09pm
Rather going into argument who is right or wrong, why don't wise people like you suggest & support carrying out "fair" referendum in regions like south punjab, hazara and karachi. If it's democracy, let common people decide and not politicians & "wise" people what is good for people of "Pakistan", If anyone thinks common Pakistani's are not mature enough to decide, then entire democracy is a failure as it's due to their votes.
MUHAMMAD ARSHAD SIDIKI Oct 30, 2014 11:59pm
MQM KARACHI OR HYDERABAD KI BHARPOOR NUMAINDGI KARTI HAY SUKKUR, NAWAB SHAH ,MIRPUR KHAR, OR DEGAR SHEHRO MAY BHI MQM KA KAFI ASRO RASOKH HAY, OR AGAR AAJ BHI ELECTION HO JAIN TU 100% MQM HI JEETY GI. SINDH K SHERI ELAQO MAY TARAQIYATI KAAM NA HONY K BARABAR HAY OR SAFAI, HELTH OR LAW & ORDER KA SAB KO ILM HAY, AGAR AAJ BHI MQM KO IKHTIYARAT DAY DIYE JAIN TU MQM SIND KA NAQSHA HI BADAL DAY GI. MAGAR YAHAN TU LOOT KAHSOOT KA BAZAR GARAM HAY. ES LIYE AB MQM K PAAS MUHAJIR SOOBY K ILAWA KOI RASTA NAHI HAY OR US K SUPORTER BHI YAHI MAANG RAKHTY HAIN.
Syed Hussain Oct 31, 2014 07:49am
It appears the writer is ignoring the political hold PPP had all these years using MQM as a support arm in province and federal levels. MQM has been steadily on the losing end due to not being able to retain their support and not being able to achieve goals promised to their electors. On the other end PPP has been playing national politics in federal and simultaneously playing language policy in Sindh. Now PPP lost that due to N League's control over Punjab and other provinces have given no support in recent elections. So both allies are now back to pavilion. In fact new division politics will benefit both for some time until law changes to allow local referendum.
حارث Oct 31, 2014 07:57am
پیپلز پارٹی اور آیم کیو ایم کی موجودہ لڑائ تحریکِ انصاف کی بڑھتی ہوے مقبولیت کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ اک دفعہ پورے سندھ میں فوج کی زیرِ نگرانی انتخابات ہو جائیں تو دونوں جماعتوں کی مقبولیت اور مک مکا کا پتہ چل جائے گا۔ سندھ کی وزارتِ صحت کتنے ہی برسوں سے ایم کیو ایم کے پاس ہے کیا تبدیلی آئ سندھ کے ہسپتالوں میں ۔ جواب یہ دیتے ہیں کہ ہمیں اختیارات نہیں حاصل۔ تو جب اختیارات نہیں ہوتے تو وزارت لیتے کیوں ہیں؟
ZAID Nov 02, 2014 11:58am
@Sharminda: U are 1005% correct. Democracy is a failure in Pakistan. Look at the history , we have got more development works in Dictators era.