'شوکاز نوٹس دیا گیا تو ایک خفیہ خط عوام کے سامنے پیش کردوں گا'

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2014
سردار ذوالفقار علی کھوسہ۔ —. فائل فوٹو
سردار ذوالفقار علی کھوسہ۔ —. فائل فوٹو

لاہور: بزرگ لیگی رہنما سردار ذوالفقار علی کھوسہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے منتخب اور غیر منتخب اراکین کی ایک بڑی تعداد جو پارٹی قیادت کے رویے سے ناخوش ہے، ان کے ساتھ رابطے میں ہے۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے حکمران جماعت کے اندر فارورڈ بلاک تشکیل دینے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

سردار کھوسہ، جو اگست 2012ء کے بعد سیاسی منظرنامے سے غائب تھے، جمعرات کو اپنی رہائشگاہ پر صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’میں نے خود کسی سے رابطہ نہیں کیا۔ تاہم اراکین صوبائی اسمبلی اور غیر منتخب رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد، جو شریف برادران کے رویوں سے نالاں ہے، نے پچھلے کئی دنوں کے دوران مجھ سے رابطہ کیا ہے۔‘‘

وہ ایک دور میں شریف برادران کے سب سے زیادہ قابل اعتماد ساتھیوں میں سے ایک رہ چکے ہیں، انہوں نے دھمکی دی کہ اگر حکمران خاندان کے خلاف بات کرنے پر ان کے نام شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تو وہ کچھ رازوں کو بے نقاب کردیں گے۔

انہوں نے کہا ’’میں ایک خفیہ خط عوام کے ساتھ پیش کردوں گا، جو بہت سے حقائق پر مشتمل ہے۔‘‘

’’ان کے گڈ گورننس کا تصور اس حقیقت سے بے نقاب ہوگیا ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کو ہر سرکاری محکمے میں تعینات کردیا ہے۔‘‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ دو سال کے طویل عرصے تک خاموش رہنے کے بعد اچانک ان کے بیدار ہونے کے پس پشت کہیں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تو نہیں ہے، تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنا ضمیر فروخت نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا ’’اگر پارٹی پر قبضہ کرنے کی خواہش ہوتی تو میں نے یہ کام شریف برادران کی آٹھ برسوں کی جلاوطنی کے دوران کردیا ہوتا۔‘‘

اعلیٰ سطح کی قیادت کی سردمہری جس کا ان کو سامنا کرنا پڑا، کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’اس روز جب نواز شریف تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے جارہے تھے، میں نے ان سے ایک ملاقات کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے اپنے سیکریٹری سے میری ملاقات کا وقت طے کرنے کے لیے کہا، لیکن آج تک میں ان کی ملاقات کا منتظر ہوں۔‘‘

سردار ذوالفقار علی کھوسہ جنہیں 2012ء میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سینیٹ کا رکن منتخب کیا گیا تھا، کہتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم نے ان کی آنکھیں کھول دی تھیں، اس لیے کہ اسحاق ڈار جو دیہی سیاست سے ناواقف تھے لیکن نواز شریف کے ایک قریبی رشتے دار تھے، اس لیے انہیں پنجاب میں پارٹی کے ٹکٹ تقسیم کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران جب کہ شریف برادران بیرونِ ملک مقیم تھے، انہوں نے پنجاب کی ہر ایک گلی محلے کا وزٹ کیا تھا، لیکن انہیں تمام اہم مواقعوں پر نظرانداز کردیا گیا۔

انہوں یہ الزام بھی عائد کیا کہ مسلم لیگ ق کے فارورڈ بلاک کے بہت سے اراکین کو ٹکٹ نہیں دیے گئے، جبکہ ان سے وعدے کیے گئے تھے کہ سابق پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی اقلیتی حکومت کی حمایت کے بدلے میں ان کو ٹکٹ دیے جائیں گے۔

پنجاب کے سابق گورنر نے اس عہدے کے لیے شریف برادران کے موجودہ انتخاب کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’’کیا انہیں آٹھ کروڑ پنجابیوں میں سے کوئی بھی مناسب شخص نہیں مل سکا، اور انہیں اس اہم عہدے کے لیے برطانوی شہری کو درآمد کرنا پڑگیا۔‘‘

سردار کھوسہ نے واضح کیا کہ چوہدری محمد سرور کے ساتھ ان کے کوئی ذاتی اختلافات نہیں ہیں۔

’’میں نے اس وقت شریف برادران سے کہا تھا کہ پارٹی کی خاتون رہنما ذکیہ شاہنواز کو اس عہدے پر فائز کیا جائے اور اس طرح انہیں پہلی خاتون گورنر بنا کر نئی تاریخ رقم کی جائے، لیکن اس مشورے کو نظرانداز کردیا گیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی قسم کی مفاہمت کے امکانات نہیں دیکھتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر پارٹی قیادت پہل کرے تو کیا وہ مفاہمت کے لیے تیار ہوجائیں گے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔

’’ایک وفادار کو دو مرتبہ ڈسا نہیں جاسکتا۔ لیکن مجھے کئی مرتبہ ڈسا گیا ہے، اور اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ سردار کھوسہ مشرف کے دور کے مشکل وقت کے دوران مسلم لیگ ن پنجاب صدر تھے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سیلاب کے متاثرین کو امداد کی فراہمی کے نام پر اربوں روپیہ ہڑپ کیا جارہا ہے۔

سردار کھوسہ نے الزام عائد کیا کہ سیلاب کو روکنے کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے ہر سال اربوں روپیہ سیلاب متاثرین پر اس لیے خرچ کیا جاتا ہےکہ اس امدادی فنڈز میں سے ایک بھاری رقم غبن کی جاسکے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ شریف برادران پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے اراکن کو ان کے ناموں سے نہیں جانتے، انہیں بیورکریسی کی جانب سے اراکین صوبائی اسمبلی کی تصاویر کے ساتھ ان کے ناموں کی فہرست فراہم کی جاتی ہے، تاکہ وہ اجلاسوں کے دوران کسی شرمندگی سے بچ سکیں۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے بیٹے دوست محمد کھوسہ کو 2008ء میں شریف برادران کی جانب سے مختصر مدت کے لیے وزیراعلٰی بنایا گیا تھا، صرف اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ عہدہ انہیں کسی پریشانی کے بغیر واپس مل جائے گا۔

واضح رہے کہ دوست محمد کھوسہ بھی سردار ذوالفقار علی کھوسہ کے ہمراہ موجود تھے۔

پارٹی کی تنظیم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پارٹی کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی اس لیے کہ اس کے ڈھانچے کو برُی طرح نقصان پہنچایا گیا تھا۔

انہوں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’میں اس حقیقت سے زیادہ نہیں جانتا کہ شریف برادران نے خود اپنا مستقبل تباہ کیا ہے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں