چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری۔—فائل فوٹو

راولپنڈی: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ عدالت ، قوانین اور قواعد و ضوابط میں ترمیم کے حوالے سے قانون سازوں کو ہدایات دے سکتی ہے۔

راولپنڈی میں جوڈیشل کمپلیکس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جج صاحبان قانون سازی نہیں کرسکتے لیکن کم سے کم اپنے تجربے اور تحقیق کی بنیاد پر فیصلوں کے ذریعے قائم فرسودہ قوانین اور قوانین میں ضروری تبدیلیاں کرنے کے لئے قانون سازوں کی مدد ضرور کرسکتے ہیں۔

جسٹس افتخار کا کہنا تھا کہ عدلیہ شہریوں کے حقوق اور ان کو فراہم کی ہوئی آزادی کی محافظ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ عوام کی مشکلات اور پریشانیوں سے پوری طرح واقف ہے اور اس کے لیئے اقدامات بھی کررہی ہے۔۔

چیف جسٹس پاکستان افتخارمحمد چوہدری کہتے ہیں کہ ججز اور وکلاء کو چاہیے کہ آئینی تجاوز اور من مانیوں کے خلاف دیوار بن جائیں تاکہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنا سکیں۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ مضبوط عدلیہ ہی تمام چھوٹے بڑے اور امیر غریب کا فرق مٹا سکتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن نے عدلیہ کی آزادی کے لیئے سب سے پہلے قدم اٹھایا تاکہ اس ملک میں عدلیہ آزاد ہوسکے۔

اس موقعے پر جسٹس شاکراللہ جان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی بحالی نے ججز کو کیسز کے فیصلے قانون کی رو سے کرنے اور حکمرانوں کی مرضی کو جانے بغیر کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بطور ایکٹینگ چیف الیکشن کمیشنر انتخابی فہرستوں سے خامیاں دور کرکے اور نئے کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرستوں کو پچیس جولائی تک جاری کرنے کے اقدامات کیئے ہیں۔

ادھر جسٹس عمر عطا بندھیال کا کہنا تھا کہ تقریباً تین سو جعلی وکیل لاہور ہائی کورٹ کے بار کی لسٹ میں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وکلاء ایسوسیشن کو اپنی ہڑتال پر جانے والی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے کیوں کہ اس سے مدعیوں کو خاصہ تقصان پہنچتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

الدی حسین لاہور Jul 18, 2012 10:45am
مدد کر سکتی ہے کہ کیونکہ وہ کسی جج کے رشتہ دار، سفارشی یا مالی فوائد والے نہی ہونگے، اور ہر کسی کو ایک معقول گروپس اف لوگو ں نے اچھا بلا چھان بین کر منتخب کیا ہوگا، اپ کی طرح اندھا بانٹے رویڑیا ں اپنوں کو، اپنے ایک مہرباں جس نے فیصلہ حق میں دیا کو رٹیائرڈ در رٹیائرڈ کو پھر جج بنانے کی کو شش در کوشش، کیو نکہ اور تو کو ی پورے ملک میں وکیل اس قابل تھا ہی نہیں، اللہ معاف کرے تمارے اس انصافی پلڑے سے.