PAKISTAN-UNREST-SOUTHWEST
حکومت کو ایک بنیادی مسئلہ حل کرنا ہوگا اور وہ ہے بلوچستان کے عوام کی شکایتوں کا ازالہ --- اے ایف پی فوٹو

کوئٹہ میں خونریزی کے تازہ ترین واقعات، ایک بار پھر اس خطرناک اور سنگین انتشار کی کیفیت کی نشان دہی کرتے ہیں جس میں بلوچستان جھلس رہا ہے-

طالب علم لڑکیوں کی ہولناک ہلاکتیں اور اس کے فورا بعد بولان میڈیکل کمپلیکس کا محاصرہ، اس بات کا غماز ہے کہ تشدد پسندوں کے ہاتھ لمبے ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی دہشت پسندی کے خلاف ہماری جنگ کے تعلق سے سنگین نوعیت کے سوالات اٹھ رہے ہیں-

بلا شک و شبہ، یہ دونوں حملے ایک ہی قسم کے دہشت پسندوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں، جنہوں نے اس سے پہلے کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا قتل عام کیا تھا- پھر ملک بھر میں دہشت گردی کی دیگر وارداتیں کی تھیں-

یہ حتمی طور پر اس شہر میں تشدد پسندوں کے حملوں کی انتہائی منظم اور مربوط کارروائی تھی جسے حالیہ عرصے میں کئی بار خون میں نہلا دیا گیا تھا- اسپتال کے اندر خود کش حملے اور گولیاں چلانے کا واحد مقصد یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوں-

واضح طور پر اس حملے کا ہدف ہزارہ لڑکیاں تھیں لیکن ظاہراً غلط اندازوں کے نتیجے میں تشدد پسندوں نے ایک ایسی بس پر حملہ کر دیا جس میں مخلوط نسل کی طالبات سوار تھیں-

تشدد پسندوں کا منصوبہ یہ تھا کہ ہزارہ کمیونٹی کے مزید افراد کو ہلاک کیا جائے جو حملوں کا شکار ہونیوالے افراد کودیکھنے کیلئے فوراً اسپتال پہنچیں گے-

ہوسکتا ہے کہ ان کا منصوبہ مکمل نہ ہو پایا ہو لیکن، اس کے باوجود اسپتال میں خودکش حملے اور اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں کئی لوگوں کے علاوہ ایک سینئر سرکاری افسر بھی ہلاک ہو گیا-

ماضی کی طرح، لشکر جھنگوی نے اس خونریزی کی ذمہ داری قبول کرنے میں دیر نہ لگائی اور ڈھٹائی کے ساتھ ظاہر کر دیا کہ دہشت گردوں کا جال کس حد تک پھیلا ہوا ہے-

یہ تشدد کا پہلا بڑا واقعہ تھا، جب سے نئی منتخب حکومت نے صوبہ کی باگ ڈور سنبھالی ہے، اور یہ امید بڑھائی تھی کہ حالات بہتر ہونگے-

کوئٹہ کا یہ ہولناک واقعہ بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے زیارت میں قائد کی ریزیڈنسی کی تباہی کے چند گھنٹوں کے اندر ہی پیش آیا- دہشت گردی کی ان دونوں کارروائیوں کے درمیان کوئی تعلّق نظر نہیں آتا-

لیکن دونوں کا مقصد ایک تھا، یعنی عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں قائم ہونے والی صوبائی حکومت کیلئے پریشانیاں پیدا کرنا- دونوں ہی گروہ یہ چاہتے ہیں کہ جمہوری عمل کو غیر مستحکم کیا جائے-

اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کی صورت حال انتہائی گمبھیر ہے اور نئی نیشنلسٹ حکومت کو سنگین مسائل کا سامنا ہے-

زیارت میں ریزیڈنسی پر حملے کی نوعیت، علامتی تھی اور یہ علیحدگی پسندوں کی مایوسی کو ظاہر کرتی ہے جو شاید سمجھتے ہیں کہ صوبے میں انتخابی عمل کی کامیابی کے نتیجے میں ان کا اثر کم ہو گیا ہے-

علیحدگی پسند چاہتے تھے کہ انتخا بات منعقد ہی نہ ہوں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسکے نتیجے میں ان کی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچےگا- قوم پرستوں کی جمہوری عمل کی طرف واپسی سے بھی باغیوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے-

اب جبکہ ایک جمہوری طور پر منتخب قوم پرست حکومت، بلوچستان کے بحران کا ایک سیاسی حل چاہتی ہے- یہ یقیناً ان لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں جواس قسم کے حل کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں-

ریزیڈنسی پر بمباری، صوبا ئی اور وفاقی، دونوں ہی حکومتوں کیلئے واضح طور پر خطرے کی گھنٹی ہے-

اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ باغیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی حکومت کی پیشکش کو ناکام بنا دیا جائے- اس قسم کی دہشت گردی کی کارروائیاں قوم پرستوں کیلئے مسائل پیدا کر سکتی ہیں، نیز سیکیورٹی ایجنسیوں کے اندرونی عناصر کو بھی طاقتور بنا سکتی ہیں جو باغیوں کو کچلنے کیلئے ظالمانہ قوت کے استعمال کی حامی ہیں-

تاہم، بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد نہ صرف صوبے کیلئے، بلکہ پورے ملک کے استحکام کیلئے بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے-

حالیہ برسوں میں فرقہ واریت پر مبنی دہشت گردوں کی کارروائیوں میں جس بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے وہ اس گٹھ جوڑ کی قوت کی طرف نمایاں طور پر اشارہ کرتا ہے جو ایل جے، تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) اور افغان طالبان کے عناصر کے درمیان قائم ہے، جنھیں اس صوبے میں بڑی بڑی پناہ گاہیں حاصل ہیں-

جو چیز سب سے زیادہ تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ تشدد پسندوں کا نیٹ ورک دھڑلے کے ساتھ اپنے دہشت گرد حملوں کو جاری رکھے ہوئے ہے- تشدد پسند جس انداز سے دھماکا خیز مواد، اعلیٰ اور پیچیدہ نوعیت کے ہتھیاروں کے ساتھ اسپتال میں داخل ہوئے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہم تنصیبات پر سیکورٹی انتظامات مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں-

یہ یقینا پہلا موقع نہیں تھا کہ تشدد پسندوں نے اسپتال کے اندر حملہ کیا- فرقہ وارانہ تشدد پسندی کے خلاف اقدامات کرنا اور سیکورٹی نظام کو بہتر بنانا صوبائی انتظامیہ کیلئے سنگین نوعیت کا توجہ طلب مسئلہ ہو گا-

اب جبکہ بلوچستان، خاص طور پر کوئٹہ، سنّی فرقہ وارانہ تشدد پسندی کا اہم مرکز بن چکا ہے، آخرالذکر، بلاشبہ اکیلا صوبائی مظہر نہیں ہے-

اس مسئلہ کی جڑیں کہیں زیادہ گہری ہیں اور اس کا تعلق دہشت پسندوں کے اس نیٹ ورک سے ہے جو پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں میں اپنی کارروائیاں کر رہا ہے-

ایل جے اور ٹی ٹی پی کے درمیان تو یقینا تعلق قائم ہے- سیاسی پارٹیوں اور سیکورٹی ایجنسیوں کا یہ رجحان کہ وہ ان دونوں کے درمیان فرق کرتی ہیں، خطرناک ہے-

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی حکومت کی پیشکش، تشدد پسندوں کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور اس کے نتیجے میں فرقہ واریت کے حامل انتہا پسندوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی- مصالحت پسندی کی پالیسی کے نتیجے میں ملک کے اتحاد اور سلامتی کو تشدد پسندوں سے مزید خطرات کو لاحق ہو سکتے ہیں-

بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد پسندی کا کوئی جزوی حل نہیں ہو سکتا- اس کیلئے دہشت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک جامع قومی پالیسی کی ضرورت ہے جو اس بڑھتے ہوئے ناسورکا قلعہ قمع کر سکے-

دھشت پسندی کے خلاف قوانین کو بھی مزید مستحکم بنانے کی ضرورت ہے- موجودہ قوانین کے تحت کسی بھی دہشت پسند کو سزا دینا ناممکن ہے-

انتہا پسند مدرسوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کو ملنے والی غیر ملکی امداد نے بھی صوبے میں مذہبی انتہا پسندی کو بھڑکانے میں نمایاں حصّہ لیا ہے- سیکورٹی ایجنسیوں نے بھی ماضی میں بلوچ قوم پرستوں کے خلاف جوابی کارروائیوں میں ان انتہا پسندوں کو بڑھاوا دیا تھا جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے-

اس وسیع نیٹ ورک کو تباہ کرنے کیلئے اب بڑے پیمانے پر کارروائیوں کی ضرورت ہے- لیکن حالات کو امن و سلامتی کی طرف لے جانے کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے-

فرقہ وارانہ تشدد پسندی، بلوچستان کے تپتے ہوئے کڑھاؤ کا محض ایک پہلو ہے- صوبے میں طویل عرصے سے پکتے ہوئے بحران کے دیگر پہلوؤں سے نمٹنے کیلئے حکومت کو ایک بنیادی مسئلہ حل کرنا ہوگا اور وہ ہے بلوچستان کے عوام کی شکایتوں کا ازالہ-

بلوچ عوام کے اعتماد کو اس وقت تک بحال نہیں کیا جا سکتا جبتک کہ سیاسی کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کو روکا نہ جائے اوران لوگوں کو آزاد نہ کیا جائے جنھیں سیکورٹی ایجنسیوں نے پکڑ رکھا ہے یا اگر ان کے خلاف الزامات موجود ہیں تو انھیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے-

وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی سیاسی بے چینی اور امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے تشدد پسندوں کو مزید مواقع مل جاتے ہیں کہ وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھیں-

نئی حکومت، اپنی ساکھ اور سیاسی حمایت سے ان گمبھیر مسائل سے نبرد آزما ہو سکتی ہے- لیکن کیا اس میں اتنی سکت ہے کہ وہ ان حوصلہ شکن چیلنجز کا مقابلہ کر سکے؟


ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں