سپریم کورٹ.— فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاق کی جانب سے توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت آج شروع کی تو اٹارنی جنرل  اور وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواستوں کی سماعت فل کورٹ کرے۔

جس پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تین رکنی بینچ نے فیصلہ دیا، 5 رکنی بینچ مقدمہ کے سماعت کرے گا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ انہیں دو ہفتے کا وقت دے دیا جائے، پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کا کیس پہلے نہیں آیا۔

جس پر جسٹس خواجہ نے کہا کہ وہ درست نہیں کہہ رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسی طرح کا ایک کیس پہلے بھی زیر سماعت آچکا ہے،انیس سو چھیانوے میں چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی تھی۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے جسٹس اجمل میاں کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں ایک دو ہفتے کا وقت دے دیں ، جسے عدالت نے مسترد کردیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کافی وقت دے چکے ہیں، مسئلہ بہت اہم ہے اوراس کا فیصلہ کیا جانا ضروری ہے۔

درخواست گزار باز محمد کاکڑ کے وکیل ایم ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدلیہ کی آذادی آئین کے دیباچے میں لکھی ہوئی ہے، جس پر جسٹس جیلانی نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون ، قانون کی حکمرانی کی توسیع ہے، ہمیں یقین ہے جب تک انصاف کا نظام موجود ہے توہین عدالت کا قانون رہے گا۔

عدالت نے درخواست گزاروں کو کل تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں