the joy photos by khuda bux abro-290
تصاویر بشکریہ مصنف

کسی بھی شہر یا ملک  کے باسیوں کے مزاج یا جمالیاتی ذوق کا اندازہ آپ انکی عمارتوں، انکے رہن سہن ، انکے ٹریفک یا چوراہوں پر نسب مجسموں یا یادگاروں سے لگاتے ہیں۔ اپنی ٹریفک  کاتو ذکر نا ہی کریں تو بہتر ہے، آتے ہیں اپنے چوراہوں کی طرف جن پر لگے یادگار ہمارے جمالیاتی ذوق اور مزاج کا آئینہ دار ہیں۔ ویسے تو مجسمہ سازی یا بت تراشی کا وجود ہماری سرزمین پر  صدیو ں پہلے سے موجود تھا لیکن جب ہم نے اسے اسلام  کا نقاب اوڑھا کر اسے  پاکستان کا نام دے دیا تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس سرزمین سے ناپید ہونے لگی۔

جو تھوڑے بہت مجسمے ہمارے شہروں میں موجود تھے آہستہ آہستہ بڑی  بڑی کوٹھیوں یا پھر عجائب گھروں کی زینت بن گئے یا  ٹوٹے  ٹکڑے کسی نائی کے گرم حمام میں بھی پائے گئے۔ ہم نے تو جب ہوش سنبھالا تو کہیں جہاز رکھا تھا  تو کہیں توب، کہیں سب مرین رکھی تھی تو کہیں ٹینک، جہاں سے بھی گذریں کوئی نا کوئی مرنے مارنے کی چیز رکھی ہوتی اور ہم ان پر فخر سے نگاہ ڈالتے کہ یہ ہماری فتح کے یادگار ہیں۔ پھر جب بھٹو صاحب کا زمانہ آیا تو انہوں نے بھی اپنے نام کے حساب سے اپنے گھر کے راستے میں دو تلوار اور تین تلوار گاڑدیں۔

پھر جو ضیاءالحق کا نزول ہو ا تو ہم نے اور ترقی کی، پھر چوراہے اللہ والی چورنگی یا کلمہ چوک میں تبدیل ہوگئے۔ سار ے جمالیاتی ذوق کا اظہار مذہبی اور دینی علامات سے ہونے لگا ،کہیں  مینار کھڑے ہونے لگے تو کہیں گنبد اورمحراب ۔ یا اسی طرح کی علامتیں لے کر  یادگار بنائے جانے لگے۔ اللہ والی چورنگی تو اتنی مقبول ہوئی کہ اسکے نقل بھی بننے لگے چھوٹے چھوٹے سائز میں اور دوسرے شہروں میں بھی نظر آنے لگے۔ میں نے تو پچھلی بار میرپورخاص میں تین تلوار کی چھوٹی کاپی بھی دیکھی، ہماری دوست بھی کہیں تین تلوار کے آس پاس رہتی تھیں۔

پھر ہمارےبرادرملک کو جو ہماری ہی طرح غربت اور تنگدستی کا شکار ہے اور ابھی تک ہماری طرح اپنے لوگوں کے  بنیادی مسائل بھی حل نہیں کر پایا، ایٹم بم کا دھماکہ کردیا، ہماری بھی غیرت جاگی اور آخر میاں صاحب نے چاغی میں دھماکہ کرکے دنیا کو بتا دیا کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ اب کیا تھا شہر شہر، گاؤں گاؤں ، پارک ہو یا کوئی اورسکون  اور آرام کی سانس لینےکی جگہ، ہر جگہ چاغی کے پہاڑ نسب ہونے شروع ہوگئے۔ جسے دیکھو جوق درجوق بال بچوں سمیت چاغی کے پہاڑ کا دیدار کرنے نکلا ہوا ہے۔

چاغی کا بخار اترا تو بعد میں آنے والوں نے جگہ جگہ گھوڑے کھڑے کرنے شروع کردیے، کہیں ان پر کوئی ڈھول سپاہی بیٹھا ہے یا گھوڑاجوش میں آکر ہنہنا رہاہے یا محو رقص ہے۔ یا پھر ایسے اور جانور بھی سڑک کے ساتھ ساتھ نظر آنے لگے۔ یا پھر تھوڑی اور ترقی کی تو  کچھ ماڈرن چوک بنے جیسے شون سرکل جو  پھر بھی کچھ بہتر شکل میں تھا۔ اسکی جگہ انڈر پاس بنا ،پہلی با رکسی نے جمالیاتی ذوق اور اپنی ماضی کی علامتوں کے بہترین استعمال سے ایک دیوار سجائی جسے دیکھ کر اپنے تہذیبی  اور تاریخی ورثے پر فخرکا احساس ہوا۔

لیکن کیا کریں اس قوم کا جو پہلے سے ایمان لانے والوں کو بھی ایمان کی طرف راغب کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، لیکن جگہ جگہ گندگی کرنا اس کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے اور اگر کوئی صاف ستھری دیوار ہو، وہ بھی سجی سجائی، اسکا تو منہ کالا کرنا اس کی پہلی خواہش  ہوتی ہے۔ اس خوبصورت دیوار کا اتنی بار بلاتکار ہوا کہ جس نے بھی یہ دیوار بنائی ہوگی وہ تو یہ شہر ہی چھوڑ گیا ہوگا۔ روز صبح نئے نعرے، نئے مطالبات، پھرایک دن یہ بھی ہوا کہ ماں بہن کی گالیاں لکھی ہوئی تھیں۔ اب وہاں سے گذریں تو گٹر کھلے ہیں، بار بار کے لکھنے اور مٹانے کی وجہ سے  دیوار کی ساری خوبصورتی لٹ پٹ چکی ہے۔

ہمارے دوست اور مجسمہ ساز انجم ایازنے پہلی دفعہ ہمت کرکے سی ویو پر اپنے مجسمے نصب کئے،اور ساتھ میں کچھ پتھر پر کندہ آیات بھی تاکہ بھائی لوگوں کا ایمان بھی تازہ رہے، لیکن انہوں نے اسکا جو حشر کیا وہ دکھانے کے لائق بھی نہیں ، کچھ کو توڑ دیا، کچھ غائب ہوئے، کسی میں مقدس کاغذ ٹھونسے ہوئے تھے اور کسی پر پان تھوکا ہوا تھا تو کسی پر ہری چادر لٹک رہی تھی۔انجم ایاز جو ہمارے ملک کا مایہ نازآرٹسٹ اور مجسمہ ساز ہے اس نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری، جو مجسمہ چوری ہوگیا تھا اسکی جگہ اس سے بھی خوبصورت مجسمہ نصب کردیا، لیکن اب وہ بھی نہیں۔

ہمارا برادر ملک ایران جو شاید ہم سے زیادہ  ہی اسلام کا پابند ہوگا۔ اگر آپ کا وہاں جانا ہوا ہے تو ہر چوک پر مجسمہ نصب ہے، صرف شہر نہیں گاؤں، گوٹھوں سے بھی گذر ہو تو ہر چوک میں مجسمہ دکھائی دیگا۔  کہیں کوئی شاعر کھڑا ہے تو کہیں کوئی ادیب، کوئی مفکر ہے تو کوئی حکیم، کوئی  مصور ہے تو کوئی مجسمہ ساز، سب انکے ہیرو ہیں۔ کہیں بھی چلے جائیں ، کسی کے مزار پر یا عجائب گھریا پھر کسی پارک میں آپ کو مجسمے ہی دکھائی دیں گے اور اسلام کو بھی ان سے کوئی خطرہ نہیں۔

ہمار ے ہاں تو اتنا بڑا تاریخی ورثہ ہے لیکن ہمارے مجسمے یا تو جا کر عجائب گھر کی زینت بنے ہیں یا پھر ہم ٹرکو ں کے ٹرک بھر کر باہر سمگل کررہے ہیں اور اگر غلطی سے پولیس کے ہاتھ لگ گئے ہیں تو تھانے میں پڑے ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں، اب پھر بات آگئی ہے عدالت پر، اب عدالت ہی فیصلہ کرے گی کہ انکا  کیا کرنا ہے اور  جب تک عدالت اپنا فیصلہ سنائے، مجسمے غائب بھی ہونا شروع ہوگئے ہیں۔


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں، ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

یمین زبیری Jul 27, 2012 07:44pm
ابڑو صاحب آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اسے میں خوبصورت کہوں یا بدصورت، البتہ آپ کھے قلم سے ایک خوبصورت تحریر وجود میں ضرورآئی ہے. میں نوے کی دھائی میں کراچی میں تھا. اس وقت صابری نہاری کے سامنے ایک بہت بڑا سفید سمنٹ کا اللہ لکھا ہوا تھا، میں وہاں سے جب بھی گزرا میں نے دیکھا کے اس کے چاروں طرف بہت سے ہروئنچی بیٹھے رہتے ہیں. میرے اک دوست نے اس پر بھپتی کسی کہ ان کی اک تصویر چھاپنی چاھئے اور نیچے لکھنا چاھییے: دے آر آلسو چلڈرن آف گاڈ.
نادیہ خان Jul 28, 2012 08:26am
ہم اپنی ثقافت کی حفاظت ایسے ٹرکوں سے ہی کرتے ہیں جو ملکِ عدم روانہ ہیں. افسوس صد افسوس