فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

2008 میں جب الیکشن کے بعد پاکستان میں جمہوریت کی واپسی ہوئی تھی تو جمہوریت کی علمبردار جماعتیں 'انیس ٹھیس نہ لگ جائے ان آبگینوں کو'  گنگناتی پھرتی تھیں. جمہوریت کا نام آتے ہی ان جمہوری رکھوالوں پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور اس 'جمہوریت کی واپسی' کا تاج چاہے سر پر پورا آ رہا ہو یا نہ آ رہا ہو زبردستی جما لیا جاتا تھا.

اصل میں جمہوریت کا تو صرف نام لیا جا رہا تھا اختیارات اور طاقت کو اپنی مٹھی میں دبوچے رکھنے کے لئے تاکہ یہ 'ہما' کہیں عوام کے سروں پر نہ بیٹھ جائے. تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مگرمچھ کے آنسو بہا کر ٹائم پاس کیا اور عوام کو بلدیاتی انتخابات کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنے دیا کہ خدا نخواستہ کہیں جمہوریت اپنا قدرتی راستہ بناتی بناتی ملک کی بنیادوں تک نہ پہنچ جاۓ.

یہاں تو بس جو اقتدار میں آ گیا وہ اپنے اختیارات کو مقدس گائے کا درجہ دے کر اس کی تقسیم کو حرام قرار دے دیتا ہے. بلدیاتی انتخابات اور بنیادی جمہوریت عوام کا حق ہیں جنھیں زیادہ تر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے محروم رکھا گیا اور زیادتی کی گئی.

اقتدار کی ہوس ایک آمر میں اور نام نہاد جمہوری بازیگروں میں ایک سی ہی ہے، دونوں نظام کی بقا اپنے وجود سے منسلک کرتے ہیں بلکہ شائد واقعی طور پر اس پر 'ایمان' بھی رکھتے ہوں حالانکہ اصل میں نظام کی بقا عوام میں جمہوریت کو بنیادی سطح تک پھیلانے میں ہے.

حالیہ انتخابات کے بعد کچھ امید ہو گئی تھی کہ شائد اب اس ضمن میں کوئی پیشرفت نظر آ جائے گی ویسے بھی لوکل گورمنٹ کے سب سے بڑے وکیل جناب دانیال عزیز صاحب حکومتی جماعت کا حصّہ ہیں.

دیکھنا یہ تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور تجربات سے کم از کم پنجاب اور بلوچستان کے لئے ایک ایسا نظام تشکیل دینے میں معاونت فراہم کریں گے جو ماضی کے تجربات سے سیکھ کر تشکیل دیا گیا ہوگا لیکن انکی خاموشی کافی کچھ سمجھا رہی ہے کہ بس 'جسے پیا چاہے وہی سہاگن' یعنی 1979 کے جنرل ضیاء الحق کے تراشیدہ بلدیاتی نظام کو نئی بوتل میں بند کر کے اس پر دو چار نئے کلی پھندنے ٹانک کر عوام کو پھر سے بیوقوف بنایا جائے گا.

سندھ بھلا کیوں پیچھے رہتا اس نے بھی جھٹ 'بڑے بھائی' کی دیکھا دیکھی ضیاء مارکہ بلدیاتی نظام بحال کر دیا. لیکن کھیل صرف بحالی اور بیانات تک ہی محدود تھا، معاملات اس سے آگے نہیں بڑہ رہے تھے.

سپریم کورٹ نے بلوچستان امن و امان کیس کی سماعت  کے دوران صوبوں کو 15 ستمبر تک بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے کہا بلکہ اگلی سماعت پر صوبائی ایڈووکیٹ جنرل سے اپنی اپنی متعلقہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے حتمی تاریخ سپریم کورٹ میں جمع کروانے کا حکم صادر کر دیا.

سندھ حکومت نے تو پہلے ہی عرضی ڈال دی کہ ہم 31 دسمبر سے پہلے بلدیاتی انتخبات نہیں کروا سکتے اور پنجاب کی جانب سے بھی کچھ ایسی ہی منمناہٹ سنائی دی. خیر اگلی سماعت پر مختلف حیلے بہانے جمع کروا دیے گئے ہیں لیکن سپریم کورٹ نے یہ ہدایت کر دی ہے کہ زیادہ سے زیادہ 15 اگست تک تمام متعلقہ قانون سازی کر لی جائے.

ادھر بلوچستان پر نظر دوڑائی جائے تو پتا لگتا ہے کہ جس صوبے کو سب سے زیادہ جمہوریت کی ضرورت ہے وہاں پر اندھیر نگری چوپٹ راج کا معامله چل رہا ہے. ایک طرف سیکورٹی ایجنسیز کی من مانی ہے تو دوسری طرف وہاں کی صوبائی اتحادی جماعتیں ابھی تک وزارتوں کی بندر بانٹ سے ہی فارغ نہیں ہوئیں تو بلدیاتی انتخابات تو دور کی بات ہے. صوبے میں قوم پرستوں کی حکمرانی ایک بہت بڑا امتحان بھی ہے کیونکہ اس سنہری موقعہ کے بعد کوئی عذر باقی نہیں رہ جائے گا کہ صوبے کے معاملات کم از کم انتظامی حدود تک وہاں کی صوبائی قیادت کی ذمہ داری ہیں.

بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں خیبر پختونخوا تمام صوبوں سے نمبر لے گیا ہے تحریک انصاف کی اس تجربہ گاہ میں نہ صرف اس سلسلے میں کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے بلکہ وہاں کی قیادت ہنسی خوشی یہ انتخابات تحریک انصاف کے منشور کے عین مطابق کروانے جا رہی ہے. اگر تحریک انصاف ان انتخابات کا انعقاد اپنے منشور کے مطابق کروا دیتی ہے تو پھر باقی بڑی جماعتوں کو اپنی دکان بڑھانی پڑے گی.

اور سنئے!! یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پنجاب حکومت ان انتخابات کا انعقاد غیر جماعتی بنیادوں پر کروانے پر سوچ بچار کر رہی ہے جو کہ اس میثاق جمہوریت کی شق نمبر 10 کی صریح خلاف ورزی ہوگی جس پر مرحوم محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے دستخط کر رکھے ہیں اور مسلم لیگ ن گاہے بگاہے اس پر مکمل عمل پیرا ہونے کا اعادہ کرتی رہی ہے. لیکن یہاں معاہدوں کی کیا اہمیت رات گئی بات گئی!!

آخر کیا وجہ ہے کہ بڑی جماعتیں ایک ایسا 'معصوم' اور بےضرر نظام بنانا چاہتی ہیں جو اختیارات سے عاری ہو اور صرف ربڑ سٹیمپ کے طور پر کام آئے؟

اس سوچ کے پیچھے سیاستدانوں کا یہ خوف ہے کہ عوام کہیں ان کے بجائے ایک بالکل نئی سیاسی قیادت کو نہ کھڑا کر دیں جو ایک دن انکے اقتدار کو چیلنج کرنے کے لائق ہو جائے.

ایک مظبوط بلدیاتی نظام عوام میں جمہوریت کی جڑیں گہری کرنے کا باعث ہوگا جس سے ملکی سیاست مظبوط ہوگی اور ہمارے اداروں کا بگڑا ہوا طاقت کا توازن درست کرنے کا بھی راستہ نکل پاۓ گا.

یہ ٹھیک ہے کہ ابھی جیسے تمام اختیارات کا سرچشمہ صوبائی حکومت یا دوسری نظروں میں وزیراعلیٰ صاحب ہوتے ہیں وہ کام نہیں ہوگا لیکن صاحب آپ اپنی ذاتی خودنمائی کے لئے عوام سے انکا حق تو مت چھینئے.

مشرف کا دیا ہوا بلدیاتی نظام اپنے اندر خامیاں بھی رکھتا تھا لیکن اس میں ترمیم کر کے اسکے معاملات کو درست کیا جا سکتا ہے بس نیت ہونی چاہئے.


  علی منیر میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں