۔—اے پی فوٹو

دارالحکومت کابل کے شمال میں چند کلومیٹر کے فاصلے پر، بائیس سالہ لڑکی زمین پر جاگری مگر کلا شنکوف سے لیس آدمی بدستور اس پر گولیاں برساتا رہا اور پس منظر میں ہجوم 'مجاہدین زندہ باد' کے نعرے بلند کرتا رہا ۔

افغان حکومت، نیٹو کے زیرقیادت بین الاقوامی سلامتی کے سلسلے میں معاون فورس (ایساف) اور متحدہ ریاستوں کے سربراہان کی طرف سے شکاگو سربراہی اجلاس میں یہ اعلامیہ پیش کیا گیا تھا کہ 'افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کے لیے خواتین اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ ملکی تعمیرِ نو اور سیاسی عمل میں شریک ہوں گی'۔

حال ہی میں آٹھ جولائی کے 'ٹوکیو اعلامیہ' میں بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ 'افغان آٓئین میں عورتوں اور مردوں کے مابین مساوات، پُرامن معاشرے کے حصول کی کنجی ہوگا۔'

اس کے باوجود، دونوں اجلاسوں میں خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے نہ ہی مخصوص منصوبوں کا ذکر ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لیے خصوصی بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ ایسے  میں افغان عورتوں کا مستقبل پہلے سے زیادہ غیر یقینی نظر آتا ہے۔

کابل یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم شمع کے مطابق افغان عورتیں زندگی بھر مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ 'ایک عورت  مشکلات میں پھنسی رہتی ہے۔ تیرہ، چودہ سال کی بچی کی زبردستی شادی کردی جاتی ہے وہ بھی رقم لے کر۔ شوہر اس پر ظلم کرتا ہے مگر وہ بھاگ نہیں سکتی اور نہ ہی طلاق لے سکتی ہے۔ طلاق لینے کی صورت میں بچے اس سے چھین لیے جائیں گے اور وہ معاشرے سے خارج کردی جائے گی۔ نتیجتاً، وہ اپنے آپ کو جلالیتی ہے یا خودکشی کرلیتی ہے'۔

اس کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں ایک عورت کی اوسط زندگی چونتیس سال تک متوقع ہوتی  ہے۔ یہ شرح دنیا بھر میں سب سے کم شرحِ حیات میں سے ایک ہے۔

اگرچہ افغانستان میں آج پہلے کی نسبت حالات کافی بہتر ہیں مگر حال ہی میں ایک عورت کو سزائے موت دی جانے والی وڈیو افغان خواتین کے مستقبل پر کئی سوالیہ نشان لگاتی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب پہلے سے زیادہ افغانی لڑکیاں اسکول جارہی ہیں،خواتین کی شرحِ اموات کم ہو چکی ہے اور دو ہزار ایک کے مقابلے میں آج زیادہ خواتین ملازمت کر رہی ہیں، تاہم ترقی کی یہ مرحلہ طے کرنے میں بہت وقت لگا ہے۔

گذشتہ دہائی میں، افغانستان میں، غیر سرکاری تنظیموں اور بین الاقوامی تنظیموں کا کام بہت اہم رہا ہے مگر یہ تنظیمیں 'حالتِ جنگ' میں کام کر رہی تھیں اور اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ افغان عورتوں کی ترقی ان کی اولین ترجیح رہتی ہے یا نہیں۔

شمع کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے ۔ چند سالوں میں اسے حل نہیں کیا جاسکتا۔ طالبان کی حکومت سے پہلے خواتین افغانستان کی کام کرنے والی آبادی کا نصف تھیں۔ اسکول جانے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی تھی لیکن انیس سو چھیانوے میں، میں خاندان کے کسی مرد کے بغیر کالج نہیں جاسکتی تھی۔ وہ عورتیں جو ڈاکٹر اور استانیاں تھیں، انہیں فقیر اور طوائف بننے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ اگرچہ یہ پابندیاں دو ہزار ایک میں اٹھا لی گئی تھیں لیکن اُن پانچ سالوں میں بہت کچھ نقصان ہو چکاتھا۔ اب بھی دور دراز پسماندہ علاقوں علاقوں میں،جہاں روایتی نظام مروج ہے،عورتوں کی روز مرہ زندگی میں بمشکل ہی بہتری آئی ہے۔'

افغان سماجی ڈھانچے پر مذہبی انتہاپسندی اور قبائلی تعصب کا غلبہ ہے۔ اصلاحات کی ایک دہائی کے بعد بھی یہ نظریہ اب  بھی مضبوط ہے۔ افغان حکومت کی طرف سے عورتوں کے حقوق کے لیے ایک اہم قدم دو ہزار نو میں لاگو کیا گیا خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا قانون تھا۔

اس قانون میں عورتوں کے خلاف تشدد کو جرم قرار دیتے ہوئے اسے بائیس درجوں میں تقسیم کرکے سزا کا تعین کیا گیا ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں عدالتی افسران نے اس نئے قانون کو لاگو کرنا شروع کردیا ہے مگر عورتوں پر تشدد کے جرم سے نمٹنے کے لیے مذکورہ قانون پر عملدرامد کی شرح اب بھی بہت کم ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، اس قانون پر سب سے زیادہ عمل درآمد ہیرات اور کابل کے شہروں میں ہوتا ہے اور سب سے کم کنڑاور لوگر صوبہ میں۔

ان سرحدی شہروں میں اس قانون پر کم عمل درآمد کی وجہ وہاں طالبان کی موجودگی ہوسکتی ہے جو عورتوں کے خلاف جابرانہ پالیسی رکھتے ہیں۔

ان حصوں میں مرکزی حکومت کی رسائی یعنی باقی ملک کے مقابلے میں یہاں اسکولوں، اسپتالوں، عدالتوں اور پولیس کی تعداد بہت کم ہے۔ دیگر شہروں کے مقابلے میں، گھریلو تشدد کے متاثرین کے لیے امدادی پروگرام کی شرح بہت کم ہے ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں مقامی اور بین القوامی تنظیموں کا کام کرنا مشکل اور خطرناک ہے۔

ہیرات میں تعینات ایک برطانوی فوجی کا کہنا تھاکہ 'افغان عورتیں بہت مذہبی ہیں،ان میں بہت انکساری ہوتی ہے۔ جب میں یہاں شروع شروع میں آیا تو بازاروں اور سڑکوں پر کوئی عورت دکھائی نہیں دیتی تھیں مگر اب وہ افغان نیشنل پولیس میں شمولیت کے لیے تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ غیر ملکی تنظیموں نے بھی عورتوں کی بھرتی شروع کردی ہے کیونکہ متاثرہ عورتیں ہم  صنفوں سے بات چیت کو ترجیح دیتی ہیں۔ تاہم، اب بھی افغان اور مغرب کی عورتوں میں کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے'۔

ا س بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے کسی اور خطے کی عورتوں جیسی آزادی حاصل کرنے کے لیے افغان خواتین کو طویل راستہ طے کرنا ہے۔

مارچ دو ہزار بارہ میں، عورتوں کے بارے میں علماء  کونسل کے اعلامیہ اور کرزئی کی اس کی حمایت نے لوگوں کو اندیشے میں ڈال دیا ہے کہ کہیں ملک ایک بار پھر طالبنائزیشن کی طرف تو نہیں بڑھ رہا ہے۔

اعلامیہ کے ایک حصے میں اعلان کیا گیا ہے کہ 'عورتوں کو اجنبی مردوں سے ملنے سے گریز کرنا چاہیے جیسا کہ تعلیم، خریداری، دفتر اور زندگی کے دوسرے معاملات میں۔' اسی اعلامیہ کے ایک اور حصے میں مذکور ہے کہ 'مرد کی حیثیت بنیادی اور عورت ثانوی حیثیت کی حامل ہے اور مردوں سے نسل آگے چلتی ہے۔'

جہاں یہ کہا گیا، وہیں اعلامیہ عورتوں کے خلاف تشدد کی مذمت بھی کرتا ہے تاآنکہ وہ تشدد کسی 'شرعی وجہ' سے نا ہوا ہو۔ شرعی بنیاد پر، یہ اعلامیہ گھریلو تشدد کو نظر انداذ کر دیتا ہے۔

صدر کرزئی نے اس اعلامیہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'یہ اسلامی اصولوں اور اَقدار کو دہراتا ہے'۔ بڑی تعداد میں افغان خواتین کو لگتا ہے کہ صدر کرزئی کے طالبان سے امن مذاکرات کے بدلے میں، انہیں دو ہزار ایک میںحاصل کیے گئے اپنے حقوق پر سمجھوتا کرنا پڑے گا۔

اس بات کا خطرہ بڑھتا نظر آتا ہے کہ اگر طالبان کو ان کے پچھلے کرتوتوں کا احتساب کیے بغیر حکومت میں شمولیت کی اجازت دے دی گئی تو ملک کو ایک بار پھر وہی دور دیکھنا پڑے گا۔

 'اگر افغانستان ایک بار پھر حکومتی نظام میں جنگجوؤں کو شامل کرے گا تو ہم عورتوں کے حقوق کے لیے کچھ نہیں کر پائیں گے کیونکہ یہ جنگجو خود سب سے بڑے ظالم ہیں۔' شمع کے یہ الفاظ اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ امن مذاکرات کے نتائج میں عورتوں کا ایک مفاد شامل ہے مگر حکومت میں طالبان کی شمولیت ان کے مفاد میں ہرگز نہیں۔

تین دہائی سے ہونے والی جنگ کی وجہ سے افغانستان میں بیواؤں اور یتیموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ کم شرحِ حیات اور جلد شادیوں کی وجہ سے افغانستان کی دو ملین سے زائد عورتیں زیادہ تر بیس سے چالیس سال کی عمر کے درمیان ہیں۔

چورانوے فیصد عورتیں ناخواندہ ہیں اور تنہا غربت کی زنگی گزارتی ہیں۔ ان کی بحالی میں ایک اہم رکاوٹ قدامت پسند معاشرہ ہے جو مردوں اور غیرملکی خاتون سماجی کارکنوں کو ان بیواؤں کی مدد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان معاشرے میں اس وقت کم تر درجے پر موجود ان عورتوں کا کیا مستقبل ہوگا، جب یہاں پر موجود غیر حکومتی اداروں اور سماجی ارکان کی تعداد کم ہوجائے گی۔

نیٹو کی سینئر عوامی نمائندہ، ڈومینک میڈلی کے مطابق افغان عورتوں نے سیاسی، سماجی اور معاشی لحاظ سے کافی ترقی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا 'افغانستان کا آئین اور حکومت، عورتوں کے حقوق کے لیے پرعزم ہے، پارلیمنٹ کے ارکان کاچوتھائی حصہ عورتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ وہ فوج میں بھی شامل ہیں۔ جب تک حکومت عورتوں کے حقوق کو ترجیح دینے کا اعلان کرتی رہے گی، عورتوں کے حقوق نہیں بھولے جائیں گے۔ جب تک بین الاقوامی برادری ان کے ساتھ شاملِ حال رہے گی، تب تک عورتوں کے حقوق کو نظر انداذ نہیں کیا جاسکتا'۔

ان کا بیان اس حقیقت کی مزید توثیق کرتا ہے کہ دو ہزار چار کے آئین کے مطابق، افغان عورتوں کے حقوق، مردوں کے برابر ہیں۔ دو ہزار چار اور پانچ کے انتخابات میں چالیس فیصد عورتوں نے حصہ لیا تھا اور اب افغان پارلیمان کے ایوان زیریں کی دو سو انتالیس نشستوں میں سے اڑسٹھ نشتیں عورتوں کی ہیں۔ اسکول جانے والے چھ ملین بچوں میں سے ایک تہائی حصہ لڑکیوں کا ہے۔

 ڈومینک نے یقین دلایا کہ 'ہم افغان عورتوں کے حقوق اور ترقی سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات باہمی احتساب کے رشتے پرہیں۔ اس میں عورتوں کے حقوق کی ترقی اور تحفظ بھی شامل ہے۔ ہمارے اپنے ملکوں میں لوگوں کو افغانستان کے لیے ٹیکس پر راضی کرنا مشکل ہوگا اگر افغان آئین میں بیان کردہ عورتوں کے حقوق کا دفاع نہیں کیا جائے گا تو۔'

اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ غیر ملکی شمولیت اور اُن کی طرف سے فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد بھی عورتوں کی ترقی کا عمل جاری رہے گا، ہمارے اقدامات کو افغان معاشرے اور اقدار سے ہم آہنگ رکھنا ہوگا تاکہ انہیں بڑے پیمانے پر پذیرائی مل سکے۔

سال دو ہزار چودہ، غیر ملکی افواج کی طرف سے اختیار افغان نیشل سیکورٹی فورس کے حوالے کا سال ہوگا۔ مزید اہم بات یہ ہوگی کہ اُس سال خواتین کے حقوق ،عزم اور قرارداد کی منتقلی افغانوں کو ہوجائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں