سپریم کورٹ۔ اے ایف پی فوٹو

اسلام آباد: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ توہین عدالت کے نئے قانون کا منطقی انجام جو بھی ہوملک میں جمہوری نظام مضبوط ہوگا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف درخواستوں کی بروز پیر سماعت کی۔

درخواست گزار وںکے وکلاء نے اپنے دلائل میں کہا کہ نئے قانون سے عدلیہ کی تضحیک کا لفظ نکال دیا گیا ہے، کوئی بھی شخص جب جج بن جائے تو اس کی تعظیم لازمی ہوجاتی ہے۔

درخواست گزار شاہد اورکزئی نے دلائل میں کہا کہ معافی کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے، ان کا کہنا تھا کہ جب آئین نے ہی کسی کو استثنی اور معافی نہیں دی تو قانون کیسے دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کی رو سے وفاق اور صوبے الگ الگ قانون سازی کرسکتے ہیں، آئین کے مطابق قانون سازی کا اختیار صرف وفاق کے پاس نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 204میں جہاں قانون کا ذکر ہے وہاں پارلیمنٹ کا تذکرہ نہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ جس کے حق میں فیصلہ ہوجائے اس کیلئے تو سب اچھا ہے مگر جس کے خلاف فیصلہ ہوجائے وہ عدلیہ کا دشمن بن جاتا ہے۔

ایک اوردرخواست گزارمحمود احمد بھٹی کا دلائل میں کہنا تھا کہ توہین عدالت قانون  2012آزاد عدلیہ کیلئے موت کے مترادف ہے اور اس کے ذریعے عدالتی اختیارات کوچھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کے موجود ہ قانون میں بھی شوکازنوٹس کے اجرا ء پرانٹراکورٹ اپیل کے لیے طریقہ کاررکھا ہے ، اس کا مقصد عدالتی کاروائی کوطویل کرنا ہے۔

دیگر درخواست گزاروں جن میں ناصرہ جاوید اقبال اور بار کونسل کی درخواست پر لطیف آفریدی  شامل ہیں نے اپنے دلائل مکمل کر تے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ توہین عدالت کا قانون عجلت میں بنایا گیا جب کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ اٹھارہ کروڑ عوام کیلئے ہیں،کیس کا منطقی انجام جو بھی ہوملک میں جمہوری نظام مضبوط ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے نبی پاک نے بھی اپنے آخری خطبے میں کہا تھا کہ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ، پارلیمنٹ ، عدالت عظمی ، سول سوسائٹی اور میڈیا میں بحث صحتمندانہ اقدام ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان کوئی محاذ آرائی نہیں، ہم سب ایک ہیں،اس طرح کی کارروائی میں کوئی کسی کا مخالف نہیں ہوتا۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں