ایچ ایس بی سی بینک کا لوگو

کچھہ لوگوں کو ضرور یاد ہوگا کہ آغا حسن عابدی نے آج سے چالیس سال قبل بینک آف کامرس اینڈ کریڈٹ انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی تھی جو بی سی سی آئی کے نام سے ذیادہ مشہور ہوا۔

اپنے آغاز کی شروعاتی دہائی کے اندر ہی اٹھتر ممالک میں اسکی تقریباَ چار سو برانچیں کھل گئیں اور قریباَ دس لاکھہ کھاتے بھی کھول دئیے گئے۔ مگر اس کے دس سال بعد یہ بینک دھوکہ دہی، منی لانڈرنگ اور اثر رسوخ خریدنے سمیت بہت سے دوسرے جرائم میں ملوث ہونے کے باعث بند کردیا گیا۔ سن انیس سو بیانوے میں، سینٹر جان کیری اور ہینک براون کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق بینک پر "کالا دھن سفید کرنے، رشوت، دہشت گردی کی حمایت، ہتھیاروں کی سپلائی۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ" جیسے الزامات تھے۔

حالانکہ بی سی سی آئی میں دنیا بھر سے بھرتیاں کی گئیں، مگر اسکی آعلیٰ ملازمتیں ذیادہ تر پاکستانیوں کے حصے میں آئیں۔ یہی وجہ تھی کہ اسکو ایک دیسی بینک سمجھتے ہوئے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی جمع پونجی اس میں جمع کرانے کے لئے اسکی مختلف برانچوں کا رخ کیا۔ لہذا جب یہ بینک بند کردیا گیا تو سب سے ذیادہ دھچکا بھی پاکستانیوں کو ہی لگا۔

اندرونی کہانی اس وقت یہ تھی کہ بینک کی غیرمعمولی کامیابی نے امریکی اور برطانوی بینکوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی لہذا مغربی ریگولیٹرز نے اسے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا۔ سازشی نظرئیے گھڑنے والوں نے اس بات پہ زور دیا کہ کالا دھن سفید بنانے کا الزام تو کسی بھی بینک پر عائد کیا جاسکتا تھا مگر بی سی سی آئی کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔

چند پاکستانی یہ حقیقت قبول کرنے پر آمادہ تھے کہ بینک کے کچھہ سینئر ممبران غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے تھے۔ الزام یہ تھا کہ بینک کا کارپوریٹ ڈھانچہ جان بوجھہ کر ایسا ڈھالا گیا تھا کہ ریگولیٹری چھان بین سے بچا جاسکے۔ اسکے قرضوں کے اجراء کے عملیات بھی اپنے پاوں پہ خود کلہاڑی مارنے جیسے تھے۔ صرف گوکل شپنگ گروپ کو ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا قرضہ بنا کچھہ گروی رکھے دے دیا گیا تھا۔

اسکی صارفین کی فہرست میں ممتاز شخصیات شامل تھیں جیسے کہ صدام حسین، پانا مائی ڈکٹیٹر مینوئل نوریگا، فلسطینی دہشت گرد ابوندیل اور کولمبین منشیات کا گٹھہ بندھن میڈیلین۔ مگر شاید اسکی سب سے بڑی صارف سی آئی اے تھی جس نے افغانستان سے لیکر نکراگوا تک منشیات اور ہتھیاروں کے نیٹ ورک کو فنڈ مہیا کرنے کی غرض سے کئی دہرے اکاونٹس چلائے۔ مجاہدین اور نکراگوا کی گوریلا افواج کو انہی اکاونٹس سے ادائیگیاں کی گئیں۔ امریکی ایجنٹ اولیور نارتھہ نے، جس کو بعد میں بدنام زمانہ ایران کونٹرا اسکینڈل کی مد میں جیل کی سزا بھی ہوئی، بی بی سی آئی کے ساتھہ کئی اکاونٹس چلائے۔

میں سن انیس سو نواسی میں واشنگٹن میں قائم پاکستانی ایمبسی کے ذرائع ابلاغ کے محکمے کے لئے کام کر رہا تھا جب مجھے اس بینک کے مسائل کے بارے میں پہلی بار پتا چلا۔ چند ایک مشہور تفتیشی رپورٹروں نے مجھہ سے اس بینک اور اس کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں سوالات کئے تھے۔ ایک سال بعد امریکی انٹرنل ریونیو سروس نے ٹامپا میں ایک آپریشن کے دوران بی سی سی آئی کے بہت سے ملازمین کو، جو کہ پانامہ میں کام کر رہے تھے، نوریگا کیلئے کالا دھن سفید کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

چند ایک بینکرز کے پاکستان میں اہم تعلقات رکھنے کی وجہ سے ایمبسی اس کیس پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ ٹامپا کی عدالت میں جرم عائد کرتے وقت پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اکاونٹ کھولتے وقت یہ معلوم نہ کرنا کہ پیسہ کہاں سے آیا ہے بی سی سی آئی کی "کارپوریٹ اسٹریٹجی" تھی۔ جس پر دفاعی وکیل نے کہا تھا کہ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ یہ تمام بینکوں کا طریقہ کار ہوتا ہے؟

جلد ہی ذرائع ابلاغ نے کئی اکاونٹس کی نشاندہی کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر مالی بےضابطگیوں کا الزام لگایا۔ مرحوم اقبال احمد میرے پاس واشنگٹن میں چند دن قیام کی غرض سے رکے تو قدرتی طور پر بات چیت کا رخ بی سی سی آئی کیس کی جانب مڑ گیا۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے کہا تھا "تم کو پتا ہے عرفان، جب تم کسی اورکی سر زمین پر کام کر رہے ہو تو قوانین کی پاسداری بھی انکے ہی مطابق کرنی چاہیئے۔" ظاہر ہے بی سی سی آئی یہ بنیادی اصول اپنانے میں ناکام ہوگیا تھا۔

مگر امریکی قانون کی نظر میں بی سی سی آئی نے جس حتمی گناہ کا ارتکاب کیا وہ عربوں کے لئے ایک اہم امریکی بینک، فائننشل جنرل بینک شئیر کو خریدنا (اور اسکا نام تبدیل کر کے فرسٹ امیرکن بینک) رکھنا تھا۔ یہ ایک عہد کی خلاف ورزی تھی جسکا بی سی سی آئی کے بینک چلانے کے معاملات سے کچھہ لینا دینا نا تھا۔ شکوک دور کرنے کے لئے کلارک کلیفورڈ کو، جو پانچ امریکی صدور کا مشیر رہ چکا تھا، چئرمین نامزد کردیا گیا۔ بہرحال کچھہ ہی عرصے میں واضح ہو گیا کہ اصل میں بی سی سی آئی ہی تمام معاملات چلا رہا ہے۔ ٹامپا کیس سمیت یہ معاملہ ، بی سی سی آئی کو امریکہ میں کام نا کرنے دینے کی وجہ بنا۔

بی سی سی آئی کو مکمل طور پر بند کرنے میں اتنا ہی وقت لگ گیا ہے جتنا عرصہ یہ بینک چل پایا۔ یہ اس سال کہ آغاز ہی میں ممکن ہوسکا جب لندن میں ان تمام معاملات کو نبٹا دیا گیا۔ لکویڈیشن کے اخراجات پر ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر کی خطیر رقم لگ گئی اور کئی ممالک کے وکلاء اور اکاونٹنٹس نے بھی اس سے خوب کمایا۔ بہرحال جتنا قرضہ تھا لکویڈیٹرز نے اسکا نوے فیصد ضرور برآمد کرلیا ہے۔

عابدی نے پاکستان میں کئی رفاہی کاموں کا آغاز کیا تھا جو آج تک چل رہے ہیں۔ جن میں نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اور فاونڈیشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (فاسٹ) شامل ہیں۔ فاسٹ کا نام اب تبدیل ہو کہ بی سی سی آئی فاونڈیشن ہے۔ ان اداروں نے بہتیرے مصنیفین اور فنکاروں کی مدد کی ہے۔

ان اداروں سے فائدہ اٹھانے والوں کے لحاظ سے عابدی نے شاید کچھہ بھلائی کی ان غیر قانونی حرکتوں کے بعد جو اس کے ممبران کرتے رہے تھے۔ مگر بی سی سی آئی کی اس کہانی کی حال سے کیا مناسبت ہے؟ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم کس قدر جلد یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ لالچ ہے جو کارپوریٹ درندے کو چلاتی ہے: بی سی سی آئی کی عظیم الشان تباہی کے اکیس سال بعد بینکوں نے دنیا کو اقتصادی تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔

فرق آج اتنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں حکومتیں اب بینکوں کو بند نہیں کرتیں بلکہ ضمانت کرادیتی ہیں۔ یورپ کے سب سے بڑے بینک، ایچ ایس بی سی کے جدید اسکینڈل کو، کارپوریٹ لالچ کی مثال کے طور پر لے لیجیئے۔ امریکی سینٹ کے پینل کی جانب سے پابندی لگائے جانے کے بعد اسکو ممکنہ ایک ارب ڈالر کے ہرجانے کا سامنا ہے۔ اور الزام کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں بلکل صحیح اندازہ لگایا آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔ منشیات کے پیسوں کو سفید کرنا اور دہشت گرد گروپوں کی رقم کی منتقلی میں مدد کرنا۔

یہ حقیقت کہ، ایچ ایس بی سی کو بند نہیں کیا گیا جبکہ بی سی سی آئی کو حتمی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا، پاکستانیوں کو ناگوار گزرے گی جو ویسے ہی بیرونی دنیا کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دوسرے بینک بھی ہرجانوں سے بچتے رہے ہیں یا بچتے رہیں گے۔ اب ہم اقبال احمد کے اس تجزیئے کی جانب واپس چلتے ہیں جو انہوں نے دوسروں کی سرزمین پہ کام کرنے سے متعلق کیا تھا۔ ایچ ایس بی سی جیسے بینک یورپی بینکاری نظام میں اس طرح قدم جما کر رچ بس چکے ہیں کہ انکو بند کرنا ایک بڑی مالیاتی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔

پچھلی دو دہائیوں نے بینکاری چلانے سے متعلق ذیادہ نہیں بلکہ کم ریگولیشنز دیکھی ہیں۔ سیاستدان، لندن میں مالیاتی میدان میں ممکنہ ترقی کے امکانات دیکھہ کر چندھیا سے گئے ہیں اور اور اب بھی جبکہ اس چڑھاو کو تھمے کافی عرصہ گزر چکا ہے، بینکار ایک دوسرے کو بڑے بڑے بونس دیتے رہتے ہیں۔

اوبامہ اور ڈیوڈ کیمرون جیسے رہنما بھی ان خبیث بینکوں پر پابندی لگانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ بینکاری سے متعلق تمام اسکینڈلز میں، جنکو ذرائع ابلاغ میں اچھالا بھی گیا اور انکی مذمت بھی کی گئی، آج تک ایک بھی بینکر گرفتار نہیں کیا گیا۔ ایک امداد کار کے تجزیئے کے مطابق "جبتک بینکوں کے بورڈ روموں میں ہتھکڑیوں کی آواز نہیں گونجے گی یہ رویہ جاری رہے گا۔"

یہاں پہ سبق یہ نہیں ہے کہ زندگی غیرمنصفانہ ہے: یہ تو ہمیں پہلے سے پتا ہے۔ مگر پریشانیاں مول لینے سے دور رہنا ہے، خاص کر جب آپ گھر سے بہت دور ہوں۔

عرفان حسین فیٹل فالٹ لائنز: پاکستان، اسلام اینڈ دی ویسٹ کے مصنف ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں