چند طاقتور میڈیا ہاوسز کی جانب سے ضیاء کے نظریات کی حمایت ایک نیا عنصر ہے۔ – فائل فوٹو

ہمارے مباحثوں میں سب سے گرماگرم موضوع نا تو عدلیہ اور افسرشاہی کے مابین تنازعہ ہے اور نا ہی پاک امریکہ تناو کی نئی وجوہات، بلکہ کچھہ ٹی وی چینلوں کو ملنے والی رقوم میں اچانک اضافہ ہے۔

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ پیسوں کی اس فراوانی سے الیکٹرانک میڈیا کی صنعت پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ البتہ ڈھکی چھپی نیلامیوں کے حوالے سے مقبول چہروں کی وقعت میں ایک بڑا اضافہ ابھی سے واضح ہوگیا ہے۔

ایک لحاظ سے یہ غیر متوقع بھی نہیں ہے۔ بین الاصنعتی مقابلہ بازی ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور ذیادہ باوسائل ٹی وی ہاوسز نے کسی موقع پہ بھی اپنے حریفوں کے مال پہ ہاتھہ ڈالنے میں دریغ نہیں کیا ہے۔ اجارہ داری کے حصول میں میڈیا گٹھہ جوڑوں کی "ہاف وے ہاوسز" میں ترقی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

اخبارات کے مالکین نے غیرسرکاری (ضروری نہیں کہ خودمختار) ٹی وی چینلز چلانے کے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کی ہیں۔

بڑے تعلیمی اداروں کی جانب سے انکو مقابلہ درپیش رہا۔ ایک ادارہ، جس کے پاس ایک بڑی طالبعلموں کی باڈی موجود ہو، ایک اخبار چلانے کے لئےصارفین کی تعداد کافی ہوتی ہے اور اسکو استعمال کرتے ہوئے وہ الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں بھی قدم رکھہ سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ترقی میں یہ سب جائز ہے۔

الیکٹرانک میڈیا کی صنعت میں تازہ سرمایہ کی آمد اس وقت ہوئی ہے جب ذیادہ تر صنعتیں مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر یہ خوش قسمت ٹی وی ہاوسز اپنی مشکلات کے بارے میں بہانے بازی بند کردیں تو یہ انکے لئے اچھا ہوگا۔ مگر اس سے امیر ٹی وی ہاوسز اور انکے قدرے کم خوشحال حریفوں کے درمیان فاصلہ مزید بڑھہ جائے گا۔ اسکو ترقی کے لئے ناگزیر قیمت کے طور پر بھی تسلیم کیا جاسکتا ہے۔

ذرائع ابلاغ میں موجود لوگوں کی قسمتوں پہ پڑنے والے حیران کن اثرات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق چند ٹیلیوژن ہیوی ویٹز نے نئے مالکان چن لئے ہیں۔

اپنی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کی پیشہ ورانہ خواہش رکھنے میں کوئی مذائقہ نہیں ہے۔ جگہ کی تبدیلی پہلے سے بہتر کام کرنے کا چیلنج پیش کرتی ہے اور اس منتقلی کے دوران بہترین طریقے سے ذمہ داریاں نبھانے کا راز کھل جانے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ شہرت یافتہ چہروں کے متبادل بن جاتے ہیں انکو شہرت و دوام حاصل کرنے کے مواقع مل جائیں گے۔

البتہ ذرائع ابلاغ کا اقتصادی استحکام یا اس صنعت میں کام کرنے والوں کے لئے نئے مواقعوں کی فراہمی اس سخاوت کی وجوہات نہیں ہیں بلکہ اس کا مقصد آئیندہ ہونے والے اہم انتخابات کے دوران رائےعامہ کو آلودہ کرنا ہے۔ کیونکہ اس دفعہ ہونے والے انتخابات پہلے کے انتخابات سے کہیں اہم ہونگے۔ ابتک ہونے والے انتخابات میں معاملات بہت سادہ اور آسان تھے۔ سن انیس سو اڑتالیس سے انیس سو اٹھاون تک عوام کو پارلیمانی جمہوریت کے پیمانے کے اندر رہتے ہوئے ایسے افراد یا پارٹیوں کو چننا تھا جو تحریک آزادی کے مقاصد کو ذیادہ بہتر طریقے سے اجاگر کرتے ہوں۔

انیس سو اٹھاون سے انیس سو ستر تک جمہوریت کے لئے بانجھہ پن کے سال تھے۔ انیس سو ستر کی دہائی میں ہونے والے انتخابات پارلیمانی دائرے میں رہتے ہوئے خودمختاری اور جمہوری آزادی کے لئے لڑے گئے۔ سن انیس سو ستتر کے بعد اور ضیاءالحق کے زیرانتظام کرائے گئے بدنام انتخابات کے علاوہ، سب سے اہم معاملہ آزادی، آمریت اور عصمت دری کے بغیر ترقی کرنا تھا۔ پارلیمانی جمہوریت کا ڈھانچہ کبھی بھی خطرات سے دوچار نہیں تھا۔ مگر اب ہے۔

آئندہ انتخابات میں چوائس صرف برے اور نا اہل اور اچھے اور فعال جمہوریت پسندوں کے درمیان نہیں ہوگی۔ نظام کی تبدیلی کے بغیر حکومتی معیار مرکزی معاملہ نہیں ہوگا۔ بلکہ پہلی مرتبہ مقابلہ جمہوری نظام میں بہتری کا مطالبہ کرنے والوں اور ایسے لوگوں کے درمیان ہے جو جمہوری چہرے کے پیچھے الہی احکامات نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستانی سیاست میں ہمیشہ سے ایسے عناصر شامل رہے ہیں جو اس تبدیلی کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ اب تک تو وہ کمزور تھے، مگر شدت پسند دہشت گردوں کے ساتھہ میل جول کی ریاستی حکمت عملی اور کچھہ درمیانی راستہ اختیار کرنے والوں کے شدت پسندوں کے نظریات اپنا لینے کے باعث، جمہوریت کو لاحق خطرات پہلے سے کہیں ذیادہ ہیں۔

میڈیا ہاوسز اور انکے اینکر پرسنز پاکستان کی روح کی بقاء کے خاطر ہونے والے اس معرکے میں کس طرح کا کردار ادا کریں گے؟ چند طاقتور اداروں کی جانب سے ضیاء کے نظریات کی حمایت ایک نیا عنصر ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی اینکر پرسن کھلم کھلا جناح کی مذمت اور ضیاء کی تعریف نہیں کرے گا۔

تمام مباحثوں میں عقیدوں کی بنیاد پر اندرونی اقدار کی حمایت اور مغربی اصولوں کی مذمت کی جائے گی یا ناکام تجربات کو شرطیہ کامیاب فارمولوں سے تبدیل کرنے کی بات ہوگی۔

عوام کو کس طرح قائل کیا جائے گا کہ ذرائع ابلاغ کسی مخصوص پارٹی کے منشور کو مقصدیت میں لپیٹ کر تشہیر نہیں کریگا؟

اسی تناظر میں حال ہی میں جنم لینے والی ذرائع ابلاغ کے ضابطئہ اخلاق سے متعلق بحث کو عام حالات کے مقابلے میں ذیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ضابطئہ اخلاق کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سب سے پرانا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا مرتب کردہ ہے جس میں افرادی سالمیت اور ٹریڈ یونین اقدار کو سب سے ذیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ علیحدہ ہو جانے والی یونین بھی ضابطئہ اخلاق رکھنے کا دعوی کرتی ہے۔ براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے پاس بھی ایک ضابطئہ اخلاق ہے جو اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ اس کے ممبران مجرموں کی حمایت نہیں کریں گے۔ پریس کاونسل کے پاس خاصہ تفصیلی ضابطئہ اخلاق ہے۔ اور اب علیحدہ علیحدہ میڈیا ہاوسز بھی کرنے اور نا کرنے والے کاموں کی فہرستیں مرتب کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

یہ تمام ضابطئہ اخلاق اچھے تصور کئے جائیں گے اگر ان پر ایمانداری سے عمل درآمد کیا جائے اور اگر انکا مقصد ان کے مصنفین کے لئے بے ایمانیاں کرنے کا دائرہ کار بڑھانا ہے تو پھر یہ بیکار ہیں۔ تمام میڈیا ہاوسز مفادات عامہ کا خیال رکھنے کا دعوی کریں گے مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ مفادات عامہ کی انکی تشریح مقصدی چھان بین کا سامنا کر پائے گی یا عوامی بھلائی کی مناسبت سے ہے بھی کہ نہیں۔ پس ذرائع ابلاغ اپنے مقدمہ کا سامنا کر رہی ہوگی اور ایک لحاظ سے پاکستان کا مستقبل اسکے ہاتھہ میں ہوگا۔

وہ نکتہ جس پہ سب سے ذیادہ زور دیا جانا چائیے وہ یہ ہے کہ میڈیا، چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، عوامی جگہ ہے اور اسکا استعمال محض مالکین کے حق میں بلاجواز ہے۔ جب تک یہ جگہ ہر طرح کے نقطئہ نظر، سوائے سند یافتہ جرائم پیشہ افراد کے، کی تشہیر کرتی رہے گی، عوام کو نقصان پہنچنے کے اندیشے بھی اتنے ہی کم ہوں گے۔ باقی تمام صورتوں میں ذرائع ابلاغ، عوام کی جانب سے بھاری قیمت چکائے جانے کے بعد ، فائدے میں رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں