چھ اگست انیس سو نوے میں بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو بدعنوانی کے الزمات کے تحت ختم کر دیا گیا تھا۔ بینظیر دوبارہ اقتدار میں آئیں تو انہیں اسی قسم کے الزامات کے تحت دوبارہ اپنی حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے، جس کے بعد انہوں نے جلا وطنی اختیار کر لی۔ تاہم جب وہ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان واپس لوٹیں تو انہیں راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ اعزاز سید ان دنوں ایک فعال صحافی تھے اور انہوں نے بینظیر کی ذندگی کو لاحق خطرات سے متعلق ایک خبر فائل کی تھی ۔ یہ خبر انہیں کیسے ملی، جانیے انہی کی زبانی۔


پاکستان تحریک طالبان کے رہنما بیت اللہ محسود میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے۔—اے پی فائل فوٹو

چار اکتوبر کی صبح میں معمول کے مطابق اپنے بستر سے اٹھا اور ناشتے کے بعد روایتی پینٹ شرٹ کے بجائے سفید رنگ کی اپنی محبوب شلوار قمیص زیب تن کی۔ سردیوں کی وہ صبح دمکتے سورج میں کِھل رہی تھی۔

میں نے شلوار قمیص کا انتخاب خصوصی طور پر اس لیے کیا تھا کہ جس شخص سے ملنے جارہا تھا، وہ مذہبی اور جہادی رجحان کا حامل تھا۔

ایسے افراد پینٹ شرٹ میں ملبوس کسی بھی شخص کا پہلا تاثر مغربیت پسند، سیکولر یا لامذہب کے طور پر لیتے ہیں، لہٰذا پینٹ شرٹ میں ان سے گفتگو میں ان کی طرف سے اجنبیت اور غیرضروری احتیاط حاوی رہتی ہے جو معلومات کے حصول کے عمل کو کافی دشوار اور بعض اوقات ناقابلِ رسائی بنادیتی ہے۔ خیر، میں مقررہ وقت یعنی دس بجے پارلیمنٹ لاجز میں ان کے کمرے کے باہر دستک دے رہا تھا۔

ملک ایک انتہائی اہم موڑ سے گزر رہا تھا۔ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نو مارچ دو ہزار سات کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کرنے کے بعد سے ہر آنے والے دن میں کمزور تر ہوا جارہا تھا۔

اسی دوران اسلام آباد کی لال مسجد میں آپریشن کے بعد سے ملک کے اندر مذہبی عناصر مشرف حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔

دائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتیں اس اقدام پر مشرف کے خوب لتّے لے رہی تھیں تاہم بائیں بازو کی جماعت پیپلز پارٹی کی جلا وطن سربراہ بے نظیر بھٹو نے اس آپریشن کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ یہ تنقید بھی کی تھی کہ حکومت نے جان بوجھ کر آپریشن میں تاخیر کی اور یہ کہ اگر وہ خود حکومت میں ہوتیں تو کئی ماہ پہلے یہ آپریشن موثر انداز میں کرچکی ہوتیں۔

اسی ماحول میں شدت پسندوں نے ملک کے اندر ہشت گردی اور خود کش حملوں کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اگست کے مہینے سے جنوبی وزیرستان میں تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فوجیوں کو بیت اللہ محسود نے اغوا کر رکھا تھا۔

ان فوجیوں کی رہائی کے لیے سینیٹر صالح شاہ جو کہ بیت اللہ محسود کے قریبی دوست جانے جاتے تھے، رکنِ اسمبلی ہونے کے ناطے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حکومت اور بیت اللہ محسود کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھا رہے تھے تاکہ اغوا شدہ فوجیوں کو آزاد کرایا جاسکے۔

یہ وہ لمحات تھے جب جنرل پرویز مشرف سیاسی طور پر کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے دبئی میں بے نظیر بھٹو سے خفیہ ملاقات کرچکے تھے اور آج جب میں پارلیمنٹ لاجز میں موجود تھا، اُس وقت مشہور زمانہ مصالحتی آرڈیننس دو ہزار سات(این آر او) کو حتمی شکل دی جارہی تھی۔ (یاد رہے کہ یہ آرڈیننس پانچ اکتوبر دو ہزار سات کو جاری کیا گیا تھا)۔

میں اس سارے سیاسی منظر نامے کو سوچتے ہوئے صبح دس بجے پارلیمنٹ لاجز کے کمرہ نمبر ۔۔۔۔۔ کے دروازے پر موجود تھا جہاں صالح شاہ میرے منتظر تھے۔

سینیٹر صالح شاہ کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے، نوجوان اور خوبصورت گورے چٹے درمیانے قد کے حامل صالح شاہ پہلے بھی متعدد بار سینیٹ کے لیے قسمت آزمائی کرچکے تھے مگر یہ پہلی بار تھا کہ وہ رکن سینیٹ کے طور پر اپنے علاقے کی نمائندگی کر رہے تھے۔

دروازہ صالح شاہ کے بیٹے نے کھولا جس کی عمر تقریباً سات آٹھ برس تھی۔ اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ میں نے ڈرائنگ روم کا جائزہ لیا تو یہ محسوس کیا کہ وہ درمیانے درجے کے آدمی کا ڈرائنگ روم لگ رہا تھا۔

بڑے بڑے سیاستدانوں کے ڈرائنگ روم کے برعکس کمرہ کسی قابل ذکر ڈیکوریشن پیس سے نہیں سجایا گیا تھا بلکہ الماریوں میں بھی عام برتن رکھے تھے۔ یہ سب صالح شاہ کی شخصیت میں سادگی کے عنصر کو واضح کررہے تھے۔

اس سے دو روز قبل ہی میں نے صالح شاہ کے بارے میں اخبارمیں پڑھا تھا کہ وہ حکومت اور بیت اللہ محسود کے درمیان مذاکرات کے سلسلے میں فعال کردار ادا کررہے ہیں۔

بعدازاں میرے فون پر رابطہ اور ملاقات کی خواہش کے اظہار پر انہوں نے اس روز آنے کا وقت دیا تھا۔

صالح شاہ ڈرائنگ روم میں اپنی روایتی بھاری بھرکم پگڑی پہنے، لائٹ گرے رنگ کے روایتی قبائلی شلوار قمیص میں ملبوس نمودار ہوئے۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے گرمجوشی کا اظہار کیا لیکن ان کے چہرے پر سنجیدگی کا عنصر نمایاں تھا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ ایک انگریزی اخبار سے منسلک ہوں۔

میں نے ان کی مذاکراتی عمل میں دلچسپی کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ روز ہی بیت اللہ محسود سے مل کر آئے ہیں۔ ان کا انداز گفتگو بہت بھلا اور مشفقانہ لگ رہا تھا۔ ایک ایک لفظ نپے تلے انداز میں ادا کررہے تھے اور لہجے میں تیگن کی گرج تھی۔

دوران گفتگو انہوں نے مجھے بتایا کہ بیت اللہ نے گزشتہ رات دو فوجیوں کے سرقلم کیے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ خبر میں آپ کو دے رہا ہوں اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ خبر کے متلاشی نامہ نگار کے لیے یہ ایک بہت بڑی خبر ہوسکتی ہے۔ میں نے اپنی نوٹ بک میں اس کی تفصیلات درج کیں تاہم ان سے اپنے سوالات بھی جاری رکھے۔

دوران گفتگو یہ یقین ہوگیا کہ صالح شاہ ایک ایک لفظ انتہائی سوچ سمجھ کر بول رہے ہیں، وہ آن دی ریکارڈ کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ میں نے جب ان سے خودکش حملوں کے جائز ہونے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ دیکھو ہمارے علاقے میں ایجنسیاں بہت زیادہ موثر ہیں جب کہ شدت پسند بھی بڑے بااثر ہیں، اس لیے میں کوئی بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا جس سے مجھے کسی بھی طرف سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

انہوں نے بتایا کہ خودکش حملوں کی شرعی حیثیت کے بارے میں کھل کر تمام باتیں کرنا موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔ ادھر ادھر کے چند سوالات کے بعد میں نے ان کی توجہ جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کی ملاقات کی طرف دلاتے ہوئے کہا کہ بائیں بازو کی جماعت پرویز مشرف سے مل چکی ہے اور دونوں ہی شدت پسندوں کے خلاف ہیں۔ اس لیے این آر او جاری کیا جارہا ہے، کیا آپ نے اپنے دوست بیت اللہ محسود سے کبھی اس بارے میں بات کی کہ یہ مل کر بیت اللہ اور اس جیسوں کی طبیعت ٹھیک کریں گے؟

میرے سوال پر صالح شاہ مسکرائے اور کہا کہ آپ نے درست سوال کیا ہے، میری اس بارے میں بیت اللہ سے بات ہوئی ہے۔ اسے کسی کا کوئی ڈر نہیں۔ وہ تو کہہ رہا تھا کہ بے نظیر تو امریکا کی ایجنٹ ہے۔ میں نے اس کے استقبال کے لیے اپنے بندے بھیج دیے ہیں۔

صالح شاہ کی بات میں نے فوری طور پر اپنی نوٹ بک میں درج کی اور فوراً اپنا اگلا سوال دے مارا کہ اس کا تو واضح مطلب ہے کہ بیت اللہ بے نظیر پر خودکش حملے کرے گا۔

صالح شاہ نے کہا کہ مطلب جو بھی ہے لیکن میری طرف سے خود کش حملے کی بات خبر میں مت لکھنا۔ مجھے میری خبر مل چکی تھی اور اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ یہ خبر آنے والے دنوں میں تاریخی اہمیت اختیار کرے گی۔

شام کو دفتر پہنچنے کے بعد میں خبر ٹائپ کی۔ خبر میرے ریذیڈنٹ ایڈیٹر سے ہوتے ہوئے میرے ایڈیٹر نجم سیٹھی کے پاس گئی، جنہوں نے اس میں دو فوجیوں کے ذکر کو دوسری خبر میں ضم کیا اور بے نظیر کی جان کو وطن واپسی پر لاحق خطرہ کو الگ ایک مکمل خبر کے طور پر صفحہ اول پر نمایاں طور پر شائع کردیا۔

خبر کی اشاعت نے دوسرے روز ملک بھر میں تہلکہ مچادیا۔ تمام بین الاقوامی اور مقامی نشریاتی اداروں نے میری خبر کو خصوصی طور پر مانیٹر کیا۔ یہ خبر بے نظیر بھٹو پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی پہلی باضابطہ اطلاع تھی۔

ٹھیک دو سال بعد جب میری بے نظیر بھٹو قتل سے متعلق خفیہ دستاویزات تک رسائی ہوئی تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) نے بے نظیر بھٹو پر کسی ممکنہ حملے کے بارے میں اُس وقت کے سیکریٹری داخلہ کمال شاہ کو دس روز بعد یعنی پندرہ اکتوبر کو خطرے سے آگاہ کیا تھا۔

جس روز میری خبر ڈیلی ٹائمز میں شائع ہوئی، اس روز اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف کو آئندہ مدت کے لیے صدر نتخب کرائے جانے کی تیاریاں کی جارہی رہی تھیں۔ بے نظیر دبئی میں تھیں۔ مشرف اسلام آباد میں اور بے نظیر کے قاتل اسے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

تبصرے (2) بند ہیں

سردار عمران اعظم Aug 08, 2012 12:56pm
ماشاء اللہ ،انتہائی اختصار کے ساتھ مگر جامع انداز میں آپ نے ایک انتہائی اہم خبر قارئین تک پہنچائی ہے،لیکن کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بیت اللہ مسعود نے بینطیر بھٹو کو صرف ذاتی حثیت میں امریکی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے قتل کیا ہے اور اسے پاکستان کے کسی اور ادارے کی یا کسی بیرونی طاقت کی حمایت حاصل نہیں تھی؟ بیت اللہ مسعود صرف ایک مہرہ تھا،اصل کردار پردے کے پیچھے ہیں جنھیں بے نقاب ہونا چاہیے مگر کبھی بھی ہو نہیں پائیں گے.
اجاز Aug 09, 2012 07:36am
اصل کردار پردے کے پیچھے ہیں جنھیں بے نقاب ہونا چاہیے mijazurrehman