سیکنڈ اینگلو-افغان وار، بیٹل آف قندہار  -- وکی میڈیا کامنز
سیکنڈ اینگلو-افغان وار، بیٹل آف قندہار -- وکی میڈیا کامنز

عام طور پر بڑھک تو یہی ماری جاتی ہے کہ افغانستان اور قبائلی علاقے یعنی فاٹا کبھی کسی کے زیر تسلط نہیں رہے مگر تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیورینڈ لائن بنانے کے بعد اس تھیوری کو بڑی مہارت سے بوجوہ پھیلایا گیا۔

انیسویں  صدی سے جاری برطانیہ-روس سرد جنگ (دی گریٹ گیم) ہو یا پھر بیسویں صدی کی امریکہ-روس سرد جنگ، اس تھیوری کو پھیلانے والوں میں باہر والے، قوم پرست اور جہادی سبھی پیش پیش رہے۔

کابل مغلوں کا اک صوبہ رہا اور کنڑ، باجوڑ اور خیبر کے خان، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے "لہور دربار" سے نا صرف تعلقات رکھتے تھے بلکہ مراعات بھی لیتے رہے اور باج (ٹیکس) بھی دیتے رہے، یہ کہانی قیام پاکستان سے محض 107 سال پرانی ہی ہے۔ اس سے بھی پہلے سکندر اعظم اور نادر شاہ سرزمین افغانستان کو جی بھر کے روند چکے تھے جو سب تاریخ کا حصّہ ہے.

اس وقت ان تین سالوں کا ذکر مقصود ہے جب کابل و قندھار انگریزی فوجوں کی پریڈ دیکھتے رہے تھے۔ یہ 1839 سے 1842 کا زمانہ تھا کہ جب انگریزوں نے احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ شجاع کی حمایت کا ارادہ کیا اور اسے کابل کے تخت پر بٹھانے کے لیے فوجوں کا رخ کابل و قندھار کی طرف کر دیا۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال یعنی 27 جون 1839 کے دو ماہ بعد ہی انگریز کابل پر شاہ شجاع کو بٹھا چکے تھے جبکہ کابل کا حکمران دوست محمد خان بارک ذئی بامیان کے راستے پہلے بخارا گیا اور جب وہاں مدد نہ ملی تو پھر پنجاب سے ہوتا ہوا لدھیانہ انہی انگریزوں کے پاس پناہ گزین ہوا جنہوں نے اس کی حکومت ختم کی تھی۔

تاریخ میں اسے "پہلی انگریز-افغان جنگ" کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر انگریزوں کے ہمراہ اسی جنگ میں بے شمار افغاں سردار اور قبائلی علاقوں کے "خان" تھے لہٰذا اسے اینگلو افغان جنگ کہنا بھی مزید غلط فہمیوں کو جنم دینے کا 'بہانہ' ہی لگتا ہے۔

اس جنگ سے قبل انگریزوں نے ایک 'سہ ملکی معاہدہ' کیا تھا جس میں لہور دربار، شاہ شجاع اور کمپنی بہادر شامل تھے۔ شاہ شجاع 1802 سے 1809 تک افغانستان کا پادشاہ رہا تھا اور اس کے بعد سے وہ پنجابی سکھوں اور انگریزوں کی مدد سے کابل کا تخت دوبارہ حاصل کرنے میں جتا رہا۔

1809 سے مہاراجہ کئی بار انگریزوں کی فوج کو افغانستان پر حملہ کے لیے پنجاب سے گذرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتا رہا تھا۔ مگر اس دوران افغانستان کے بادشاہ 'لہور دربار' سے تعلقات بہتر بنانے میں کبھی سنجیدہ نہ ہوئے بلکہ پشاور اور ملحقہ علاقوں پر قبضے کے بہانے تراشتے رہے۔ پشاور میں دوست محمد خان کا بھائی سلطان محمد خان حکمران تھا مگر وہ بھی 'لہور دربار' کے ساتھ تھا۔

1839 کے وسط میں کلکتہ اور بمبئی سے انگریز فوج بمعہ رائل بنگال آرمی، سندھ کی طرف بھیجی گئی جسے سندھ کے تالپوروں اور قلات کے خان نے مدد فراہم کی۔ شاہ شجاع سندھ میں ان کا منتظر تھا اور یہ جنگی قافلہ قندھار کو چل دیا۔ تاریخ اسے 'فوج سندھ' کے نام سے یاد کرتی ہے۔

دوسری طرف وائسرائے آک لینڈ (ابھی تک پنجاب و کشمیر پر قبضہ نہیں ہوا تھا اس لیے یہ صاحب وائسرائے ہند کی بجائے سرکاری طور پر "وائسرائے آف بنگال" ہی کہلاتے تھے) شاہ شجاع کے بیٹے تیمور شاہ کو لے کر لاہور سے کابل کی طرف روانہ ہوئے۔

پشاور سے قبائلی علاقہ تک بہت سے پختون اس میں شامل ہوئے۔ مہاراجہ نے معاہدہ میں طے کروا لیا تھا کہ انگریزوں کو "لہور دربار" عسکری مدد فراہم نہیں کرے گا اور شاہ شجاع کابل کے تخت پر بیٹھنے کے بعد فاٹا تک "لہور دربار" کی عملداری تسلیم کر لے گا۔

انگریزوں سے یہ بھی تسلیم کروایا گیا تھا کہ انگریزی لشکر کابل جاتے یا واپس آتے ہوے لہور دربار کے علاقوں میں کسی قسم کی قتل و غارت گری یا لوٹ مار نہیں کریں گے۔

مشہور زمانہ دلی کالج میں زیرتعلیم شہامت علی وہ طالب علم تھا جو بطور فارسی مترجم اس مہم میں وائسرائے کے ہمراہ تھا۔ اس کی کتاب "سکھ اور افغان" (انگریزی) میں اس جنگ کی تفصیلات درج ہیں۔ کنگھم، سٹین بیچ، موہن لال کشمیری اور دیبی پرشاد نے بھی اس واقعہ کی تفصیلات اپنی کتب میں درج کی ہیں۔ موہن لال کشمیری تو شہامت علی کا کلاس فیلو بھی تھا۔ دلی کالج سے ایسے نوجوان طلباء کو انگریزی سفارتی مشنوں کے لیے چنا جاتا تھا جو فارسی اور انگریزی میں مہارتیں رکھتے تھے۔

شاہ شجاع کو انگریزی مدد سے کابل کے تخت پر تو بٹھا دیا گیا اور افغانستان 1842 تک انگریزوں کے زیرتسلط بھی رہا مگر اس دوران دونوں "لہور دربار" کے تحفظات کو بھول گئے۔ دیبی پرشاد نے 1850 میں تاریخ پنجاب لکھی اور اس میں لکھا کہ 1841 سے دوست محمد خان کے حواریوں کو اٹک اور پنڈی میں پناہ گاہیں مل چکی تھیں اور اب انہوں نے پنجاب میں بیٹھ کر شاہ شجاع کو ہتھل کرنا شروع کر دیا۔

انگریزی فوج کو جب بلوچستان سے افغانستان جانا پڑا تھا تو اس کا بہت نقصان ہوا تھا اور اب کابل میں حکومت کو برقرار رکھنے میں بھی وہ اس ہی  لیے ناکام تھے کہ "لہور دربار" ان کے ساتھ نہیں تھا۔

بس تین سال میں انگریزی فوج کا جو نقصان ہوا تو اسے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اب انہوں نے لدھیانہ مقیم دوست محمد خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ایک 'غیرتمند اچھے بادشاہ' کی طرح دوست محمد خان پنجاب آۓ اور پھر یہاں سے 1843 میں دوبارہ کابل کے تخت پر جا بیٹے۔

اس کہانی میں کئی اہم سبق ہیں اور کچھ ایسے زمینی حقائق بھی جن کو سمجھنا آج ہم سب کے لیے ضروری ہے۔

پنجاب پر 1849 میں قبضہ کے بعد جب انگریزوں نے یہاں سے فوج بھرتی کرنی تھی تو پنجابیوں، پٹھانوں کو "مارشل ریس" یعنی جنگجو نسل قرار دیا گیا۔ ایسے ہی 1894 میں ڈیورینڈ لائن بنانے کے بعد جب قبائلی علاقہ کو سرد جنگی پالیسی کے تحت بطور "بفر زون" استعمال کرنا تھا تو یہ تھیوری پھیلا دی گئی کہ اس علاقہ پر تو کبھی کوئی قابض نہیں ہوا۔

تفاخر اور تعصب کو استعمال کرنا انھیں آتا بھی خوب ہے اور ہم ہیں کہ آج تک اسی تفاخر اور تعصب کو گلے لگائے بیٹھے ہیں۔ 2014 کو سامنے رکھتے ہوئے اگر اس تعصب و تفاخر سے پرے رہ کر سوچ بچار کی جائے تو ہم خطہ کو امن و استحکام کی راہ پر ڈالنے کی راہ دوبارہ دریافت کر سکتے ہیں۔


aamir profile pic555

عامر ریاض لہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (27) بند ہیں

پیر ریاض Nov 25, 2013 12:03pm
very sorry for your mental illiteracy .
شانزے Nov 21, 2013 08:36pm
سبحان! کیا کہنے آپ کی سادگی کے
خان Nov 21, 2013 03:07pm
جيب مين پيسه اجاے تو منه مين زبان ا هۍ جاتي هے کاغزۍ شيرون کو
خان Nov 21, 2013 03:11pm
With due respect, do you really consider the "tuzke babury", a personal account of an "alcoholic" and "drugged" warlord , an authentic commentary of the history ???
سہیل احمد صدیقی Nov 21, 2013 07:56am
بجاارشاد محترم یمین الاسلام زبیری
Sajid Khan Nov 21, 2013 08:14am
Dear all, hathal punjabi zuban ka lafz hy jis ka matlab tang karna, majboor karna ya fargh karna hy
فراز قریشی Nov 21, 2013 08:33am
غوری، غزنوی، بابر کے نام پر ہم نے جو اپنے پیزائیلوں کا نام رکھا ہوا ہے۔ کچھ اس بارے میں بھی ہو جائے۔
فراز قریشی Nov 21, 2013 08:43am
ان تخافر اور تعصبات کو انگریز قوم ہی نہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی جانتی ہے اور ہم سے کہیں بہتر جانتی ہے۔ اور یہی نہیں وہ ہمارے اندر کی تمام تر احساس محرومیوں کو بھی جانتی ہے۔ قوم پرستی کے نام پر نسل پرستی کو فروغ دیا جاتا ہے اور مختلف قومیتوں کے خلاف نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں۔ اور اسی طرح ڈنڈے کے زور پر ایک وم بھی بنائی جا رہی ہے۔ حالانکہ پاکستان ایک ملک ہے جہاں مختلف قومیتیں بستی ہیں۔ بہرحال ن تعصبات اور جعلی فخر نے بہت راستہ طے کر لیا ہے اور اب بھی پورے زور شور سے اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔
zeeshan Nov 21, 2013 09:19am
fatah karna alag cheez hai.. aur kabzaa barqaraar rakha is different.. kisi ne bhi except muslims kabzaa barqaraar nahi rakha.
سہیل احمد صدیقی Nov 21, 2013 05:03am
محترم یمین الاسلام زبیری صاحب آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ''غالبا مصنف اتھل پتھل لکھنا چاہتا تھا. اسے املا کی غلطی سمجھ کر معاف کردیں." اصل میں میری تصحیح کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے (اکثر بلاگ میں) کہ ترجمہ کرتے ہوئے غیر ضروری عجلت سے گریز کیا جائے
سہیل احمد صدیقی Nov 21, 2013 05:06am
محترم یمین الاسلام زبیری صاحب آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ''غالبا مصنف اتھل پتھل لکھنا چاہتا تھا. اسے املا کی غلطی سمجھ کر معاف کردیں." اصل میں میری تصحیح کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے (اکثر بلاگ میں) کہ ترجمہ کرتے ہوئے غیر ضروری عجلت سے گریز کیا جائے
سہیل احمد صدیقی Nov 21, 2013 05:13am
محترم یمین الاسلام زبیری صاحب محمد نہیں محمودغزنوی.......اورکرگزنہیں قرغیز درست ہے
سہیل احمد صدیقی Nov 21, 2013 06:28am
یاد رکھیے کہ افغانستان میں متعدد اقوام آباد ہیں اور پشتو کا مشہور مقولہ ہے:'' ہر پشتون افغان ہوتا ہے مگر ہر افغان پشتون نہیں ہوتا''
Aimal Khan Nov 20, 2013 07:12pm
i think you are taking the revenge of these Great Mehmood Gaznavi, Ibrahim Lodhi,Sher sha sori Fareed Ahmad khan,Mirwais hotak/Ahmad sha Abdali/Gazi Abdulah Khan Achakzai/Wazer Akbar khan/Ghazi Amanullah khan, what i tell you man you are giving the example of those people what they said about these Afghan and what he said about your quoted one i can give an opinion that go and search back that what is the reality and what i taught...
یمین الاسلام زبیری Nov 20, 2013 09:16pm
غالبا مصنف اتھل پتھل لکھنا چاہتا تھا. اسے املا کی غلطی سمجھ کر معاف کردیں.
یمین الاسلام زبیری Nov 20, 2013 09:42pm
جناب ایمل صاحب، جو نام آپ نے افغان بادشاہوں کے گنائے ہیں ان میں دو جو خوب ہی نمایاں ہیں وہ اصل میں نہ تو افغان ہیں نہ ہی پٹھان ہیں.محمد غزنوی کرگزترک ہیں؛ اور احمد شاہ ابدالی جو ہیں وہ ایرانی ترک ہیں. اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان اور پشتونوں پر دوسری قوموں کا غلبہ رہا ہے.
یمین الاسلام زبیری Nov 20, 2013 11:18pm
عا مر صاحب آپ کے مضمون کی جتنی بھی تعریف کی جا نے کم ہے. اگر تزک بابری دیکھیں تو اس میں پٹھانوں کے بارے میں کچہ اور ہی لکھا ہے.جہاں تک مارشل ریس کا تعلق ہے ہمارے بہت سے پنجابی اور پختوں بھائی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ انگریز نے انہیں دھوکہ دینے کے لۓ یہ بھپتی ایجاد کی تھی. شائد بہت سوں کو یہ معلوم ہو گا کہ بہادر شاہ کے خلاف انگریزوں نے غدر میں پنجابی اور پختون افواج کی مدد حاصل کر لی تھی.حقیقت ہے کہ یہ اپنوں ہی کا کیا دھرا تھا ورنہ انگیز کی اتنی طاقت نہ تھی کہ ہندوستان پر قبضہ کر سکے
سہیل احمد صدیقی Nov 20, 2013 10:41am
1939 کے وسط میں.....غلط.....1839درست ہے
سہیل احمد صدیقی Nov 20, 2013 10:43am
مہارتیں رکھتے تھے۔....غلط .....مہارت رکھتے تھے درست!
سہیل احمد صدیقی Nov 20, 2013 10:45am
اب انہوں نے پنجاب میں بیٹھ کر شاہ شجاع کو ہتھل کرنا شروع کر دیا۔.....اس کا مطلب؟
newline2100 Nov 24, 2013 08:05am
یہ سب محض تریخ کو سمجھنے کی کوشش ہے اگر اآپ اس میں اصافہ کریں تو خدا اآپ کا بھلا کرے گا اور سب کو سیکھنے کا ماقعہ فراہم ہو گا.
newline2100 Nov 23, 2013 12:40pm
یہ بات شاءد بلاگ والے ایڈیٹ کردیں مگر حقیقت ہی ہے کہ اگر ۱۸۵۷ کے نامنہاد انقلابی منجاب پر قبضہ کی تین لڑایوں میں لہور دربار کا ساتھ دیتے تو ۱۸۵۷ کی نوبت ہی نہ آتی تریخ کو حقیقت کی عینک سی دیکھنے کی ریت ابھی شراع نہیں ہوءی اس جنوبی ایشیا میں۔
newline2100 Nov 23, 2013 12:34pm
لفظ ہتھل ٹھیک ہے اس کا مظلب ہے ایسا پیشان کرنا کہ شکست صاف نظر آنے لگے۔
newline2100 Nov 23, 2013 12:30pm
this was an error. thanks for correction
newline2100 Nov 23, 2013 12:47pm
اندر باہر کا کیا مظلب ہے جب میرے لہور پر مرہٹے قبضہ کریں تو وہ اندر کے ہوے اور اگر لہور سے چند سو میل دور افغان کریں تو وہ باہرلے۔ ذرا اس لاجک پر غور ہی کرلیں۔ سرحدیں کب بنیں تھیں ، پادشاہتیں کب ختم ہوءیں؟ جغرافیاءی بنیادوں پر کانٹ چھانٹ کر ملک بنانا تو حال کا واقعہ ہے سرکار
یمین الاسلام زبیری Nov 23, 2013 12:22am
Tuzke Babri is a personal account, and it has personal opinion of Baber, still it is a source of history of that time. We will say that because it is a personal account it needs to be double checked to form a right opinion. However, we can not run away from the history and if is a fact that Baber conquered the Kabul and surrounding area. Please do not forget that it was this drunkard who predicted that Shershah Suri, a Pathan, would be a king.
newline2100 Nov 26, 2013 05:42am
u should write ur point of view with references instead of using such language. it is a discussion and u should add