ہزارہ کا ایک نوجوان اپنے رشتے دار کی ہلاکت پر رورہا ہے۔ رایئٹرز فوٹو

یہ کہانی ہے دو لڑکوں کی جنہیں تقسیم کے کئی برس بعد پاکستان چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ ان میں سے ایک اتنا چھوٹا تھا کہ اسے اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ اپنا وطن کیوں چھوڑ رہا ہے اور دوسرے کو اچھی طرح اندازہ تھا پھر بھی اپنے آپ کو سوال کرنے سے روک نہ سکا۔

اس سال کے آغاز میں میں ایک چودہ سالہ ہزارہ لڑکے سے کراچی سے بینکاک جانے والی ایک پرواز کے دوران ملا۔ مزاق مستی کے موڈ میں پاکستانی تاجروں کا ایک گروہ اس لڑکے پرچینی زبان آزمانے کی کوشش کرنے لگا۔

لڑکے نے پریشان ہوکر کہا کہ یہ لوگ کونسی زبان بول رہے ہیں؟ میں نے احتیاط کے ساتھ گروہ کو بتایا کہ لڑکا پاکستانی ہے۔ تاجراس بات پر حیران رہ گئے کہ چینی نظرآنے  والا یہ بچہ روانی کے ساتھ اردو کیسے بول لیتا ہے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے ہمیں اکیلا چھوڑدیا اور آپس میں بینکاک کے قحبہ خانوں پر بات کرنے لگے۔

میں نے لڑکے سے پوچھا اکیلے چھٹیوں پر جارہے ہو؟

میں نویں جماعت میں ہوں، وہ خود کو بچہ نہیں کہلوانا چاہتا تھا۔

تو تم اسکول کیوں نہیں جاتے ، میں نے پوچھا

پھر جو کہانی اس نے سنائی وہ میرے لیے نئ نہیں تھی تاہم ایک بچہ کے نقطہ نظرسے میں نے پہلی بار سنی تھی۔ اسنے کہا ابو کچھ عرصے سے عجیب طرح سے برتاؤ کررہے ہیں۔ اسنے دھیمی آواز کے ساتھ کہا کہ سریاب روڈ پر انکی ایک بہت بڑی دکان ہے۔

پہلے وہ وہاں روز جایا کرتے تھے تاہم اب وہ زیادہ تر گھر پر ہی رہتے ہیں۔ لڑکے نے بتایا کہ پہلے ابو نے مجھے اسکول جانے سے روک دیا پھر باہر جانے پر بھی پابندی لگادی اور پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ میں بینکاک جارہا ہوں۔

اس لڑکے کو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ اسکی برادری کس قسم کے حالات کا سامنا کررہی ہے۔ اسکے والد کوئٹہ کے ان تاجروں میں سے ایک ہیں جنہیں اپنے کام پر جاکر مرجانے یا گھر پر رہ کر زندہ رہنے کے بیچ انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ لڑکے کو اس بات پر یقین تھا کہ اسکے والد کچھ عجیب طرح سے برتاؤ کررہے تھے۔

میں نے اس لڑکے سے سوال بوچھا کہ کیا تم کبھی بینکاک پہلے جاچکے ہواور تمہارا خاندان کا کوئی وہاں موجود ہے؟

اسنے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا کہ نہیں، میں کبھی کہیں نہیں گیا۔ میری ساری بہنیں کوئٹہ میں ہیں اور میں انکا واحد بھائی ہوں۔ میں بینکاک میں انکل مرزا کے ساتھ رہنے والا ہوں۔ پھر ٹھیٹ لڑکپن کے جوش کے ساتھ اسنے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ  انکل مرزا کو جانتے ہیں؟ بینکاک میں انہیں سب جانتے ہیں۔

کچھ دیر بعد پتا لگا کہ انکل مرزا انکے خاندانی دوست ہیں لیکن یہ لڑکا ان سے کبھی نہیں ملا تھا۔ مجھ میں یہ کہنے کا حوصلہ نہیں تھا کہ میں کسی انکل مرزا کو نہیں جانتا اور میں یہ بھی تصور نہیں کرپایا کہ اس بچے کی بینکاک میں کیسی زندگی ہوگی۔

اسی سال ہزارہ برادری کے ایک رہنما عبدالقیوم چنگیزی میتیں اٹھانے کے خوف سے مجھ سے کہنے لگے کہ وہ حکومت کو ایک مشورہ دینے والے ہیں کہ انکی تمام جائیداد انکا گھر، کاروبار، دکانیں اور تمام جمع پونجی لیکر حکومت انہیں کسی جہاز میں بیٹھا دے اور کسی ایسے ملک بھیج دے جو انہیں قبول کرنے کو تیار ہو۔

وہ  ہزارہ لڑکا بھی جہاز میں اکیلا مسافر تھا اور انکل مرزا وہ واحد ملک تھے جو اسے قبول کرنے کو تیار تھے۔

ممبئ میں ایک کتاب کی رونمائی کے دوران ایک لڑکے سے میری ملاقات ہوئی۔ اسے میری کتاب میں ذکر کی گئی سندھی شاعری میں دلچسپی تھی۔ یہ نوجوان ممبئ میں کام کرتا تھا۔ اسنے اچانک مجھ سے کہا میں شکارپور سے ہوں۔ میں امید کرنے لگا کہ یہ کوئی سیاح یا پھر کام کے سلسلے میں آیا ہوا کوئی شخص ہوگا تاہم اسکی بھی کہانی جانی پہچانی تھی۔

 وہ سولہ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ نقل مکانی کرکے ہندوستان آیا تھا۔ اسنے بتایا کہ نوے کی دہائی میں جب اندورن سندہ میں لوگوں کو اغواء کیا جارہا تھا تب وہ اپنے والدین کے ساتھ ہندوستان آگیا تھا۔

ایک محبِ وطن پاکستانی ہونے کے ناطے میں نے اسے یادہانی کروائی کہ پاکستان میں مسلمان بھی اغواء ہوتے ہیں تاہم وہ اقلیتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے بارے میں بات کرنے پر دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ اسنے مجھ سے کہا کہ اسے اکیلے میں بات کرنی ہے۔

ہم بھیڑ سے تھوڑا دور ہوگئے۔ اسنے مجھے بتایا کہ اسکے والدین اسکی بہنوں کو لیکر پریشان تھے کہ جب وہ جوان ہونگی تو کیا ہوگا۔ میں نے اسکی ممبئ کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ بہت بہتر ہے۔ وہ سونی ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک طویل عرصے سے چلنے والے ڈرامے کا ڈائریکٹر تھا۔ وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ زندگی بسر کررہا تھا۔

اسنے مجھ سے کہا کہ یہ آپ کویہ عجیب لگے پر آپ شاید میری مدد کرسکتے ہیں۔ اسنے بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے اسے شکارپور کے متعلق خواب آتے ہیں۔ خواب مختلف ہوتے ہیں پر جو کچھ ہوتا ہے وہ شکارپور کی گلیوں میں ہوتا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ میں شکارپور کے بارے میں زیادہ سوچتا بھی نہیں۔ ہاں، میں وہاں بڑاضرور ہوا تھا پر وہ ماضی کی بات ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ خواب رک جائیں۔

میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا میں نے بڑبڑاتے ہوئے ہوم سکنیس کے بارے میں ذکر کیا جسے اسنے فوری طور پر رد کردیا۔ اسنے کہا کہ وہ واپس جانا نہیں چاہتا پر وہ ان خوابوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ انکا ذکر کسی سے نہیں کرسکتا۔

میں نے اسے مشورہ دیا کہ اسے اپنے تجربات کے بارے میں لکھنا چاہیئے۔ اسنے اصرار کیا کہ یہ کوئی کہانی نہیں ہے۔ میرے وہاں رشتے دارموجود ہیں انکے لیے مشکلات کھڑی نہیں کرنا چاہتا اور ویسے بھی میرے خوابوں کے بارے میں کون پڑھنا چاہے گا۔

میں اس بارے میں بات کرنے میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں لیکن آپ سے ذکر اس لیے کیا کیوں کہ آپ سندہ سے ہیں اور آپنے اس شاعری کا ذکرکیا جو مجھے پسند ہے۔

میں نے مضمون تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے ہندوستانی ڈراموں کے نشیب و فراز کے بارے میں بات کی۔ اسنے مجھے بتایا کہ اسکے سب بھائی بہن شادی شدہ ہیں اور گھر سے دور جاچکے ہیں۔ میں نے پوچھا گھر کہا ں ہے؟

اسنے گجرات کے کسی چھوٹے سے شہر کا نام لیا۔ اسنے کہا کہ میرے والدین ابھی بھی وہاں ہیں۔

اسکے بعد اسنے اپنے خوابوں کا مضمون پھر سے چھیڑدیا۔ اسنے کہا کہ جب میں سوکراٹھتا ہوں تو اپنے والدین کے بارے میں سوچتا ہوں کیونکہ جب وہ نقل مکانی کرکے آئے تھے تو وہ صرف سولہ سال کا تھا تاہم اسکے والدین ساٹھ سال سے زائد عمر کے تھے اور نقل مکانی سے قبل وہ کبھی شکارپور سے باہر نہیں رہے تھے۔

لیکن وہ پھر بھی اس بارے میں بات نہیں کرتے تاہم مجھے انکی فکر ہوتی ہے کہ وہ کس کیفیت سے گزرتے ہونگے۔

 اب میں یہ بات سوچتا ہوں کہ جب وہ ہزاہ بچہ ایک اجنبی دھرتی پر جوان ہوگا تو کیا اسے بھی سریاب روڈ کے خواب ستائیں گے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

عابد شکیل فاروقی Aug 29, 2012 10:25am
میری نظر میں مذ ہب ایک انفرادی معاملہ ہے ،جب بھی اسے زبردستی کسی پر ٹھوسا جائے گا، دوسروں کے مذہبی عقیدو ں میں زبردستی مداخلت کی جائے گی تو اسی قسم کے حادثات جنم لیں گے، یہاں شیعہ ، ہزارہ برادری، احمدی ،ہندو ، عیسائی ، سکھ ،اور سیکولر مایئنڈڈ لوگ اسی قسم کے سلوک کا شکار رہیں گے ، اسکا واحد حل ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے پر پابندی لگا دی جائے، اور ریاست کو مذہب سے الگ کیا جائے