روہینگا مسلمان کوالالمپور میں برطانوی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔—اے پی فوٹو

ینگون: میانمار نے فرقہ وارانہ جھڑپوں کی، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے ہیں، تحقیقات کے لیے ایک نیا کمیشن قائم کر دیا ہے۔

یہ بات کمیشن کے ارکان نے ایک خبر رساں ادارے کو بتائی۔

مغربی ریاست رکھائن میں بدھوؤں اور مسلمان روہینگا کے درمیان خونریز بدامنی کے بعد سرکاری حکام کو انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے کڑی نکتہ چینی کا سامنا ہے۔

ریاست کا ترجمان سمجھے جانے والے اخبار نیو لائٹ آف میانمار کے مطابق مذہبی رہنماؤں ،فنکاروں اور سابق حکومت کے مخالفین پر مشتمل ستائیس رکنی یہ کمیشن، واقعات کے اصل حقائق بے نقاب کرنے کے علاوہ اقدامات تجویز کریگا ۔

اخبار کے مطابق کمیشن کے قیام کا مقصد جون میں ہونے والے تشدد کی وجوہات ،فریقین کی ہلاکتوں کی تعداد اور کشیدگی کے خاتمے کے لیے اقدامات تجویز کرنے کے علاوہ پرامن بقائے باہمی کے طریقے معلوم کرنا ہے ۔

رکھائن نیشنلٹیز ڈویلپمنٹ پارٹی کے چیئرمین آئے ماؤنگ نے کمیشن کے قیام کو درست اقدام قرار دیتے ہوئے کہا یہ اس امر کا آئینہ دار ہے کہ ہم اپنے ملک کی تقدیر کا خود فیصلہ کر سکتے ہیں ۔

یاد رہے کہ حکومت نے فرقہ وارانہ تشدد کی تحقیقات کے لئے جون میں ایک کمیٹی قائم کی تھی لیکن صدر تھین سین نے کبھی اس کی تحقیقات جاری نہیں کی ۔

حکومت نے مسلمان روہینگا کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بڑھتے ہوئے احتجاج کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر دنیا کے سب سے بڑے مسلمان گروپ اسلامی تعاون تنظیم کو ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے ۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تشدد کے ابتداء میں اسی افراد ہلاک ہوئے لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق ہلاک شدگان باالخصوص روہینگا مسلمانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

توقع ہے کہ کمیشن عینی شاہدین کو دعوت دیگا اور اسے تشدد سے متاثرہ ان علاقو ں تک رسائی کا موقع دیا جائے گا، جہاں کئی دیہات تباہ و برباد کر دیئے گئے اور ہزاروں سے زائد بے گھر افراد حکومت کے زیر انتظام کیمپوں اور پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔

تھین سین نے گزشتہ سال فوجی اقتدار کے یکسر خاتمے کے بعد متعدد اصلاحات کی ہیں لیکن رکھائن کے خون خرابے نے ان تبدیلیوں پر گہرے سائے ڈال دیئے ہیں ۔

میانمار کی حکومت نے اقوام متحدہ کی طرف سے مسلمانوں پر کریک ڈاؤن کے بارے میں خدشات کے اظہار کے بعد رکھائن میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے زیادتیوں کے الزامات کی تردید کی ہے ۔

نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے میانمار کی فوج پر جون میں بدامنی کے آغاز پر روہینگا مسلمانوں پر فائرنگ، آبروریزی اور ہجوم کے ایک دوسروں پر حملوں کے دوران خاموش تماشائی بنے رہنے کا الزام عائد کیا ہے ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں