خالد جدون کو پولیس لے جاتے ہوئے۔ رائٹرز فوٹو

اسلام آباد: چیئرمین پاکستان علماء کونسل علامہ طاہر محمود اشرفی نے پیر کے روز انٹیلیجنس ایجنسی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے لیئے مطالبہ کردیا تاکہ عیسائی لڑکی کے خلاف توہین مذہب کیس کے حوالے سے پیش رفت ہوسکے۔

پاکستان بین العقائد لیگ کے چیئرمین ساجد ایساق کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ طاہر نے کہا کہ سچائی کو آگے لانا اور اصل مجرم کو پکڑنے کے لیئے مختلف انٹیلیجنس ایجنسیوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم بنانی چاہیے تاکہ کسی کی بھی بےجا حمایت نہ کرتے ہوئے اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔

اس کیس نے جمعے کے روز اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب اس  مسجد کے مؤذن نے پولیس کی تحویل میں بیان دیا کہ مسجد کے امام خالد جدون چشتی نے قران کے اوراق عیسائی لڑکی رمشا کے خلاف اس کیس کو مضبوط بنانے کے لیئے خود ڈالے تھے۔

انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ خالد جدون نے لوگوں کو مقامی پولیس اسٹیشن کے باہر احتجاج کرنے پر اکسایا تھا۔

علامہ اشرفی نے سوال اٹھایا کہ کس طرف ایس ایچ او نے اس کیس کو چند لوگوں کے دباؤ میں آکر رجسٹر کیا جب کہ قانون کے تحت توہین مذہب کے کیس کو رجسٹر کرنے سے پہلے سپراینٹنڈنٹ اس کی چانچ پڑتال کرتا ہے۔

انہوں نے میڈیکل بورڈ کو بلانے کا مطالبہ کیا تاکہ رمشا کی دماغی حالت کا صحیح طریقے سے پتہ چل سکے۔

پاکستان بین العقائد لیگ کے چیئرمین نے کہا کہ ان کے تنظیم محر آباد کے عیسائیوں کو تحفط فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خالد جدون پر آگر جرم ثابت ہوجاتا ہے تو ان کو ان کے کیئے کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں