بھوت پریت پر آپ کو اعتبار ہو یا نا ہو لیکن ایک بھوت جو نا ہی ہم دیکھنا چاہتے ہیں اور نا ہی ہمیں دکھائی دیتا ہے، ہمارے اردگرد کب سے منڈلا رہا ہے ۔

یہ آبادی کا بھوت ہے جسے دیکھنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ سب آنکھیں چرا رہے ہیں یا پھر دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ویسے بھی ہمیں سنائی وہی دیتا ہے جو ہمارے کان سننا چاہتے ہیں، باقی اگر کوئی کچھ بھی بول رہا ہے تو وہ  خود ہی سن رہا ہوگا۔

ہمارے کانوں تک تو وہی پہنچتا ہے جو ہم سننا چاہتے ہیں۔ سرکار کو اگر ججز کی حاضری سے فرصت ملے گی تو ادھر ادھر بھی دیکھی گی، ویسے بھی ایک طرف ججز ہیں تو دوسری جانب اتحادی، افہام وتفہیم کا دور ہے۔ تسی وی کھاؤ تے سانوں وی کھان دیو۔

اگر ججز اور میڈیا کی وجہ سے حکومت ذرا  بھی ڈگمگاتی ہے تو  اسے پھر اپنے اتحادیوں کےنئے مطالبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر مشیروں اور وزیروں میں بھی اضافہ کرنا پڑتا ہے۔

اب افہام و تفہیم کی وجہ سے اتنی وزارتیں بن چکی ہیں کہ وزارتوں کو نام دینا بھی مشکل ہوگیا ہے کچھ بھی آئیں بائیں شائیں نام دے کر وزیر بنا دیتے ہیں، باقی وہ جانے اور اس کا کام۔

ہمارے کوئی گھر سے جاتا ہے۔ قوم کا پیسہ ہے قوم پر ہی خرچ کر رہے  ہیں، دس بیس وزارتیں بانٹنے سے اگر جمہوریت اپنے دن پورے کرلے گی تو کونسا آسمان گر پڑے گا، وردی والے بھی تو دس دس سال بیٹھے ہوتے ہیں اور کسی کو بھی وزیر بنا دیتے ہیں۔

ہم تو پھربھی عوام کے منتخب نمائندوں کو ہی بٹھا رہے ہیں وزارت کی کرسی پر، اس کے بعد یا نصیب پھر دس سال کون انتظار کر ےگا۔

ویسےعدالتیں ، اسمبلیاں، اخبار، ٹی وی ان ہی مسائل میں الجھےہو ئے ہیں کہ کس کو گرانا ہے اورکس کو چڑھانا ہے۔سارے وسائل ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ہی خرچ ہورہے ہیں۔

میاں صاحب حکومت میں بھی ہیں اور باہر بھی۔ محل میں بیٹھ کر غریبوں کی فکر میں دبلے ہو رہے ہیں۔ جو تھوڑے بہت وسائل اس مملکت خدادِ پاکستان میں رہ گئے ہیں، اسے آبادی کا بھوت دھیرے دھیرے نگلتا جا رہا ہے۔

آبادی کا مسئلہ نا ہی جج صاحبان کی ترجیح ہے، نا ہی حکمرانوں کی، نا میڈیا کو اسکی بھنک ہے نا ہی سیاستدان اسکی طرف دیکھتا ہے۔ کوئی  پیسہ واپس لانے کی فکر  میں ہے تو کوئی  بحفاظت لے جانے کی ۔

کوئی نئے صوبے بنا کے چھوڑے گا تو کوئی الگ ملک بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ پہلےبھی جو ملک بنانے کا خواب مسلمانوں  نے دیکھا، آبادی اتنی بڑھائی کہ بلآخر ملک لے کر چھوڑا۔

جیسے جیسےآبادی بڑھ رہی ہے ویسے  وسائل  بھی کم ہوتے جا رہے ہیں اورمسائل میں  بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ہمیں حکمرانوں، میڈیا اور اپوزیشن کے شیروں نے ان چھوٹے چھوٹےمسائل میں الجھایا ہوا ہے۔

جن کے حل سے  اگر کوئی تبدیلی  آئی بھی تو ان کی اور ان کے آگے پیچھے پھرنے والوں کی زندگی میں آئے گی۔

ویسے ہم کیوں ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈال رہے ہیں، اس آبادی کے بھوت کے ذمہ دار ہم خود  بھی توہیں۔ بغیر سوچے سمجھے آبادی میں اضافہ تو ہم ہی کر رہے ہیں۔

بچے دو ہی اچھے تو اب کہیں بھی سنائی نہیں دیتا، اس ادارے کو تو  اوراداروں کی طرح ہم نے کھا کھپا کر پورا کردیا۔

ہم تو غربت، بیروزگاری  اور لوڈشیڈنگ کا سارا غصہ بچوں پہ بچے پیدا کرکے نکالتے ہیں۔ کھانے کو ہو یا نا ہو بچہ پیدا ضرور کرنا ہے کہ وہ اپنی قسمت بھی ساتھ لیکر آتا ہے۔

کوئی بیٹے کے چکر میں آبادی میں اضافہ کر رہا ہے تو کسی کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ یہ بھی اللہ نے دیا ہے  ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا،ہم تو بس شکر کرتے ہیں۔

بیروزگاری سے تنگ آگئے تو بازار میں لے کر آگئے بیچنے کے لئے، دھڑا دھڑتصویریں بھی کھنچتی ہیں تو چینل پربھی دکھاتے ہیں۔ پھر اگر روزگار ملا اور آمدنی بڑھی تو وہی غریب آدمی دوسری کیا تیسری بھی کرلے گا۔

وڈیرا چوہدری تو ایک گاؤں میں رکھتا ہے تو دو شہر میں، لیکن غریب بھی کسی سے کم نہیں۔ پچھلے سال جب سیلاب آیا تو ستر سے اسی فیصد خواتین امید سے تھیں، امدادی کارکنوں کو سب سے زیادہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑا ۔

ہر خاتون جس میں اپنی جان بھی نہیں تھی آٹھ  دس بچوں کی ماں تھی ۔ کیمپ میں جائیں تو خواتین بچے سنبھال رہی ہیں یا کھانے پکا رہی ہیں اور شوہرِ نامدار چارپائی پر لیٹے ہیں کہ ہمیں تو امداد ملی ہی نہیں۔

بچوں کا کیا ہے وہ تو اللہ کی دین ہے، دیے ہیں تو پالے گا بھی وہی۔ اسکول نہیں ہیں تو کیا ہوا، مدرسے تو ہیں ہی۔ پڑھائی، رہائش کھانا مفت۔

صبح شام کھانے میں ملے گا بکرے کا گوشت جو آجکل شرفا بھی کھانے کو ترستے ہیں۔

پھر والدین کا تو دوسرا جہان بھی سنور رہا ہوتا ہے۔ اب تو پیکیج آ گئے ہیں۔ ایک بیٹا دو گے تو یہ ملے گا، دو  دو گےتو فوائد اس سےبھی زیادہ ہونگے، تین دیئے تو آپ کو حج بھی کروا دیں گے۔ غریب آدمی کو اور کیا چاہیے۔

ادھر اہلِ اقتدار کی بھی یہی روش ہے، اہلِ اقتدار ہم انہیں  نہیں سمجھتے جو اقتدار میں ہیں، اہلِ اقتدار تو ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں چاہےانہوں نے اپوزیشن کا چوغا  بھی پہنا ہو۔

کسی نا کسی طرح سے وہ بھی اقتدار کا حصہ ہی ہوتے ہیں ۔ پورے پورے خاندان، بیٹے، بیٹیاں، چچا چچی، پھوپھا پھوپھی، بھانجے بھتیجے، دور کے ہوں  یا قریب کے رشتے دار، سول سروس ہو، آرمی، اخبار، ٹی وی یا اسمبلی یا اسمبلی سے باہر، دینی جماعت یا ترقی پسند پارٹی ، کوئی جماعت ہو ان کی اولاد یا رشتے دار ہر جگہ ہیں اور انکے کام کبھی بھی اور کہیں بھی نہیں رکتے۔

کبھی دریا کے اس پاربیٹھے ہوتے ہیں تو کبھی  دریا کی اس پار ۔ خان صاحب جو نئے انقلاب لانے کے خواب دکھا رہے ہیں ،ان کے نصیب میں بھی وہی بچے کھچے چھیچھڑے ہیں ، لیکن نعرہ پھر بھی انقلاب کا ہے۔

ادھرصحافی حضرات  کو تو صرف نوٹس  ہی لینے ہوتے ہیں، چھپتا تو وہی ہے جو بتایا جاتا ہے۔

آجکل ویسے بھی بیٹوں کا زمانہ ہے سب  بیٹے ٹرینی ہیں، آخر ملک کی باگ ڈور انہیں ہی سنبھالنی ہے تو ہم اور آپ آج کل  بیٹے بیٹیوں کی تصاویر اخبارات میں ملاحظہ کر رہے ہیں۔

چونکہ اپنی آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ نوجوان اکثریت میں آگئے ہیں اور ووٹ بھی نوجوانوں نے ہی ڈالنا ہے۔ اس لیے سب اپنے اپنے نوجوانوں کو میدان میں اتارنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

ویسے بھی اپنے ہیرو عمران خان کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت جو سیاست سے زیادہ شوشا پسند کرتی ہے،اس کےلیے اگلے الیکشن میں جلسوں کی جگہ ہمیں کنسرٹ زیادہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

تقریر کے بیچ میں میوزک کی ابتدا تو ویسے بھی ہو ہی چکی ہے۔ گاتے بجاتے ووٹ ملیں گے۔ ویسے بھی ووٹ تو فیس بک والے ہی دیں گے۔

بچارے مشرف کے ساتھ بھی دھوکہ ہوا ،فیس بک  دیکھ کر اڑنے لگے تھے، لیکن ایک ہی جلسے نے ہوا نکال دی۔

ویسےسیاستدانوں کو چھوڑیں جج حضرات کے بیٹے بھی میدان میں اترے ہوئے ہیں، دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔

کسی کی مجال ہے کہ الزام لگائے، جو دودھ کے دھلے ہیں وہ  اگر راتوں رات کروڑ پتی بن گئے تو کیا ہوا، اپنی محنت سے کمایا ہے، کسی کے ہاں ڈاکہ تو نہیں ڈالا ۔ بہرحال  سیاستدانوں اور ججوں کے بیچ بیٹے بیٹے کے کھیل میں آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

اس وقت ہم سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہیں اگلے بیس سالوں میں بہت سوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

اسکول، سڑکیں، ہسپتال، نوکریاں،  بجلی، پانی، گیس ابھی بھی نا ہونے کے برابر ہیں۔ بعد  میں کیا ہوگا تھوڑا اپنی تصور کی آنکھ سے بھی دیکھ کر دیکھیں۔

گولیاں اب بھی کھا رہے ہیں بعد میں شاید بموں پر گذارہ  کرنا پڑے۔

تصاویر بشکریہ مصنف


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں