آتشزدگی کا شکار ہونے والی گارمنٹس فیکٹری، علی اینٹرپرائززکے باہر ہلاک شدگان کے لواحقین جمع ہیں۔ فائل تصویر اے ایف پی

کراچی: کراچی میں ہولناک آتشزدگی کا شکار ہونے والی فیکٹری کے مالکان شاہد بھائیلہ اور ارشد بھائیلہ نے پیر کو ایک عدالتی ٹرابیونل کے سامنے اپنا بیان قلمبند کرایا ۔ اس حادثے میں دو سو پچاس سے زائد ملازمین جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔

واقعے کے بعد تیرہ ستمبر کو کراچی پولیس نے گارمنٹ فیکٹری کے مالکان کیخلاف مقدمہ قتل قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

کراچی کی تاریخ میں کسی فیکٹری میں لگنے والی خوفناک آگ میں دو سو اٹھاون ملازم لقمہ اجل بن گئے تھے جس کے بعد کراچی کے کارخانوں اور فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات پر ایک نئی بحث نے جنم لیا تھا۔

فیکٹری مالکان نے وکیل نے دعویٰ کیا کہ پولیس کے پاس چھتیس سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج موجود ہے جسے ٹرابیونل میں ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

فیکٹری مالک نے کہا کہ فیکٹری کے دروازے بند نہیں تھے ۔ انہوں نے کہا کہ فائرفائٹنگ ڈپارٹمنٹ سے کئی مرتبہ رابطہ کیا گیا لیکن فائرٹینڈر ایک گھنٹے کے بعد فیکٹری پہنچے۔

" پولیس جو آتشزدگی کے بیس منٹ بعد فیکٹری پہنچ گئی تھی ، اس نے بھی فائرانجنز کو بلانے کی کوشش کی، " دوسرے بھائی نے دعویٰ کیا۔

فیکٹری مالکان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آگ بجھانے اورجان بچانے کے عمل میں پانی ختم ہوگیا اور ریسکیو آپریشن کو کچھ دیر کیلئے روک دیا گیا۔

شاہد بھائیلہ نے بتایا کہ وہ خود سائٹ فائر اسٹیشن گئے تھے جہاں انہیں بتایا گیا کہ ان کے پاس پانی نہیں اور اب پانی سخی حسن اسٹیشن سے منگوایا جارہا ہے۔

ٹرائبیونل کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ قربان علوی نے بیانات قلمبند کئے۔

جسٹس علوی کے استفسار پر شاہد بھائیلہ نے بتایا فیکٹری کے مالی معاملات ایک ٹھیکیدار کے حوالے کئے گئے تھے اور وہ نہیں جانتے کہ اس دن ملازمین کو آجرت دی جارہی تھی یا نہیں۔

دونوں بھائیوں نے بتایا کہ فیکٹری کے پاس انتظامی طور پر بین الاقوامی سرٹیفکیٹ ہے جس کے مطابق فیکٹری کے تمام انتظامات بین الاقوامی معیار کے تحت چلائے جارہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں