۔— تصویر بشکریہ مصنف

اپنی زندگی کا سب سے طویل سفرطے کرنے کے بعد جب میں کراچی سے امریکی ریاست اوریگون کے شہر پورٹ لینڈ پہنچا توآدھی رات ہو چکی تھی۔

میں جب بھی بیرون ملک جاتا ہوں تومنزل پر پہنچ کر سب سے پہلے اپنی گھڑی کو مقامی وقت کے مطابق کر دیتا ہوں لیکن اس دفعہ مجھے ایسا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

گھڑی پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر کے سوا بارہ بجا رہی تھی جب کہ پورٹ لینڈ میں رات کے سوا بارہ بجے تھے۔ ثابت یہ ہوا کہ پاکستان اور اوریگون دنیا کی بالکل مختلف سمتوں میں ہیں۔

پورٹ لینڈ کے ساتھ اوریگون کا نام لینا اس لیے ضروری ہے کہ اس نام کے اور بھی شہر امریکہ میں ہیں۔

مثلاً امریکہ کی شمالی ریاست میں بھی اسی نام کا ایک شہر ہے، جس کی آبادی اُس سال یعنی سن دو ہزار چار میں چوہتر ہزارتھی، اس کے مقابلے میں، مَیں جس پورٹ لینڈ گیا وہ پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے۔

اوراگر اُس کا میٹروپولیٹن علاقہ بھی اس میں شامل کرلیں تو آبادی بیس لاکھ سے زیادہ ہوجاتی ۔ با قی کے جتنے پورٹ لینڈ ہیں، ان کی آبادی ایک ہزار سے بھی کم ہے۔

پورٹ لینڈ اوریگون کا خوبصورت شہر دریائے کولمبیا اور دریائے ویلا میٹی کے سنگم پر واقع ہے۔ بحرالکاہل کا ساحل فقط سات میل دور ہے۔

مجھے بتایا گیا تھا کہ اوریگون میں مئی کے مہینے میں سردی نہیں پڑتی لیکن میرے ہفتے بھر کے قیام کے پہلے چار روز تو سردی کراچی کی دسمبراورجنوری سے بھی زیادہ تھی۔

جیسے ہی میں ہوائی اڈے کی عمارت سے باہر نکلا، سرد ہوا کے جھونکوں نے آن دبوچا۔

اس وقت یاد آیا کہ دستی سامان میں جیکٹ رکھنے کی مجھے ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بہرحال خوش قسمتی سے جو بس مجھ کو ہوٹل لے جانے والی تھی، وہ چند قدموں کے فاصلے پہ ہی کھڑی ہوئی تھی۔

بس کے اندر ہیٹر چل رہا تھا اس لیے جیکٹ کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ بس ایک طویل القامت اور تنومند نوجوان لڑکی چلارہی تھی ۔

بس رکی تو پتہ چلا کہ ہوٹل سڑک کے دوسری جانب ہے۔ دو سوٹ کیس اور ایک ہینڈ بیگ اٹھانا ذرا مشکل تھا۔

ڈرائیورمجھے تذبذب میں دیکھ کربغیر کچھ کہے دونوں سوٹ کیس اٹھائے تیزی سے سڑک پار کرکے ہوٹل کے استقبالیہ میں پہنچ گئی اور پیشتر اس کے کہ میں اس کا شکریہ ادا کرتا، وہ غائب ہوگئی۔

میں انٹیل کے سائنس کے بین الاقوامی میلے میں شرکت کے لیے پورٹ لینڈ پہنچا تھا۔ چونکہ میلے کا آغاز پیر کو ہونے والا تھا، اس لیے آرام کے لیے اتوار کا پورا دن مل گیا، جس سے میں جیٹ لیگ سے کافی حد تک بحال ہوگیا۔

اتوار کی شام تک میں ہوٹل میں آرام کرتا رہا۔ تقریباً چار بجے جب اپنے کمرے سے نکل کر لفٹ میں داخل ہوا تو وہاں میری ملاقات ایک ادھیڑ عمر کے مرد جون وین اور اس کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی سے ہوئی۔

لڑکی کے ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ تھا اور وہ دونوں مدرز ڈے کی تقریب سے لوٹ رہے تھے۔

امریکی خاصے خوش مزاج ہوتے ہیں۔ جون وین کا رویّہ بھی دوستانہ تھا۔ وین ایک نجی آرٹ گیلری چلاتا ہے جو ہوٹل سے خاصا قریب ہے اور باآسانی پانچ منٹ میں راستا طے کیا جاسکتا ہے۔

اُکسانا جو وین کی معاون تھی آدھی روسی اور آدھی یوکرائن کی ہے۔ والد یوکرائن سے امریکہ آئے تھے اور والدہ روس سے۔ لہٰذا اپنے والدین کی طر ح وہ بھی گھرمیں روسی بولتی تھی۔

انگریزی وہ ایسے ہی بولتی تھی جیسا کہ کراچی میں روسی قونصل خانہ کے لوگ بولتے ہیں۔

وین نے مجھے اپنی گیلری چلنے کی دعوت دی جو میں نے فوراً قبول کرلی۔ بعد میں میری بیٹی نین تارا نے، جوڈیٹرائٹ میں مقیم ہے، سمجھایا کہ بغیرجان پہچان کے اکیلے کسی اجنبی کے ساتھ جانا امریکہ میں خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔

ہاں، تو بات وین کی گیلری کی ہورہی تھی جہاں ایک مقامی مصور چارلی وائٹ کی پینٹگز کی نمائش جاری تھی۔

وین نے بتایا کے چارلی کسی زمانے میں اسی گیلری کی مالکن تھی لیکن وہ گیلری چلانے کی جھنجھٹ برداشت نہیں کرسکتی تھی، لہٰذا اس نے گیلری اپنے دوست کے حوالے کردی۔

میں یہ تو بتانا بھول گیا کہ چارلی کا نام تو مردوں جیسا تھا لیکن تھی وہ ایک درمیانی عمر کی یہودی خاتون۔

وین نے بتایا کہ وہ چارلی کی بڑی بڑی پینٹنگز کو کرائے پر چلاتا ہے۔ تین مہینے کے لیے ایک پینٹنگ کسی بینک کے استقبالیہ کاؤنٹر میں لگی ہوتی اور بعد میں وہ کسی کاروباری ادارے کے بورڈ روم پر آویزاں ہوتی۔

پینٹنگ کا کرایہ اصل قیمت کا پانچ فیصد ہوتا۔ کرائے کی رقم پیشگی ملتی جو چارلی اور وین کے درمیان تقسیم ہوجاتی۔

کس حساب سے وہ وین نے نہ بتایا اور نہ میں معلوم کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے تجسس ضرورتھا۔

اس کے علاوہ وین اپنی گیلری میں چارلی اور دوسرے فنکاروں کی پینٹنگ اور بت تراشی کے نمونے فروخت بھی کرتا ہے۔ چارلی وائٹ کی پینٹنگ میں رنگوں کی خوبصورت آمیزش تھی اور لکیروں کی پختگی بھی۔

گیلری میں اوسانا کا انتظاراس کا امریکی شوہر تیٹھ ٹیکنور کررہا تھا۔ وہ بھی انتہائی خوش مزاج اورفرینڈلی تھا۔

وین نے گیلری پہنچتے ہی اپنی دوست چارلی کو فون کیا اور کہا کہ پاکستان سے ایک آرٹ کا قدر دان صحافی آیا ہوا ہے اوراسے تمہاری پینٹنگ پسند آئی ہیں۔

چارلی نے یہ سن کرکہا کہ تم چاروں میرے گھر آجاؤ۔  میں چاول اور مچھلی کا سالن تیار کردیتی ہوں۔ کھانا رات کا ساتھ ہی کھائیں گے۔

کھانا میری توقع سے زیادہ مزیدار تھا لیکن اس سے زیادہ مزیدار خوشبو والی چائے تھی۔ آج کل امریکہ میں یہ چائے جگہ جگہ ملنے لگی ہے اور اسے 'چائے' ہی کہتے ہیں۔

برصغیر کے لوگوں نے اسے امریکہ میں متعارف کرایا۔ اس کے ٹِن بعض دکانوں میں ملتے ہیں۔

نوجوان تیٹھ، پورٹ لینڈ کے کسی کالج میں فلسفہ اور جمالیات پڑھاتا ہے، برصغیراوراس کے متنوع کلچر، خاص طور پرموسیقی سے خوب واقف ہے۔ وہ کھلم کھلا امریکہ کی عراق اور افغانستان کی پالیسی کی مخالفت کرتا ہے۔

یہ ذکرسن دو ہزار چار کا ہے جب صدر بش کے خلاف ان کے حمایتیوں نے آواز اٹھانی پوری طرح شروع نہیں کی تھی۔

'اپنے ہم وطنوں سے جا کر یہ کہہ دیجیے گا کہ میں اور مجھ جیسے کئی امریکی صدر بش اور ان کی حکومت کی حرکتوں پر نادم ہیں۔ امریکہ کو کسی اور ملک میں گھسنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔' اس نے غیر جذباتی انداز میں کہا۔

وین جو گاڑی چلارہا تھا اسے سوائے اپنی گیلری اور کاروبار کے کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی۔ راستے میں وین نے کسی اور مصور کے اسٹوڈیو پر گاڑی روکی ۔

اس سے کچھ حساب کتاب کیا اور اس اثنا میں ہم نے اس کے آرٹسٹ کا کام دیکھ ڈالا لیکن اس کی مصوری میں چارلی وائٹ کے کام کی خوبی نہ تھی۔

چارلی وائٹ نے جس گرم جوشی سے میرا استقبال کیا، اسی گرم جوشی سے اس نے الوداع بھی کیا تھا۔

دوسرے دن صبح میں پورٹ لینڈ کی مقبول سواری میکس، جو میٹروپولیٹن ایریا ایکسپریس کا مخفف ہے، پر سوار ہو کر کنونشن سینٹرروانہ ہوگیا۔

میکس پٹری پر چلتی ہے۔  شہر کے درمیان تو ٹرام کی رفتار سے چلتی ہے لیکن شہر کی حدود سے نکل کر جب وہ ائیر پورٹ یا دوسری طرف چڑیا گھر جاتی تو اس کی رفتار کسی ایکسپریس ٹرین سے کم نہ ہوتی۔

شہر میں بجلی سے چلنے والی میکس کا کوئی کرایہ نہیں لیکن شہر سے باہر سفر کریں تو معمولی کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

پورٹ لینڈ شہر کی انتظامیہ کا مقصد کار کے استعمال کو کم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میکس کے ڈبوں میں ہک لگے ہوتے ہیں۔

سائیکل سوار اپنی سائیکل فولڈ کرکے ہک میں لٹکا دیتے۔ جب منزل آتی تو اُسے ہک سے نکال کر اترتے اورجھٹ سے سائیکل پر سوارہوجاتے۔

میکس نے اوریگن کنونش سینٹر کی وسیع اورعریض عمارت کے باہر اتارا۔ انٹیل کا بین الاقوامی سالانہ سائنسی میلہ اسکول کے بچوں کے لیے ہرسال امریکہ کے کسی درمیانے درجے کے شہر میں منعقد ہوتا ہے، اُس سال پورٹ لینڈ میں منعقد ہوا تھا۔

ان شہروں میں کنونشن سینٹر کا ہونالازمی ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں اتنا بڑا سائنس کامیلہ کہیں نہیں ہوتا۔ اس سال پاکستان سمیت اکتالیس ملکوں سے ایک ہزر، چار سو انتیس ہائی اسکول کے سائنس طلبہ نے شرکت کی۔

ہر ملک سے دو انفرادی ٹیمیں اورایک گروپ ٹیم، جس میں تین بچے شامل ہوتے، شرکت کے لیے انٹیل کے خرچ پر پورٹ لینڈ پہنچے تھے۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں کے پانچ بچوں میں سے صرف ایک بچے کو امریکہ کا ویزا مل سکا۔ اسلام آباد کی مہوش نوراس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوئی۔

شرکت کرنے والا بچے انٹیل کے منعقدہ میلوں میں اپنے پروجیکٹ کا مقابلہ کرتے اوران میں سے پانچ سب سے قابل بچوں کا انتخاب ہوتا۔

میلے کی افتتاحی تقریب میں ہر ملک سے آئے بچے اپنے ملک کا جھنڈا لے کر اسٹیج پر گزرتے رہے۔ مہوش نور کے ہاتھوں میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔

اُدھر کنونشن سینٹر کے وسیع وعریض ہال میں سب بچوں نے اپنے پروجیکٹ کی نمائش شروع کردی تھی۔ نور نے اپنا پروجیکٹ مائیکرو بیالوجی کے سیکشن میں لگایا تھا۔

اعلان ہوا کہ ہزار سے زیادہ جج ہوں گے۔ ان کا تعلق سائنس کے انہی چودہ شعبوں سے تھا، جن کے پروجیکٹس لگائے گئے تھے۔ جج حضرات یا تو پی ایچ ڈی تھے یا اسی کے برابر قابلیت رکھتے تھے۔

میلے کا سب سے دلچسپ حصہ ایک سیشن تھا جس میں دنیا کے نامی گرامی سائنسی شخصیا ت شریک تھیں۔ ان میں سے چھ نوبل پرائز یافتہ تھے، انہیں بچوں کے سوالوں کے جوابات دینا تھے۔

سوالات انگریزی میں کرنے تھے۔ کچھ ممالک کے بچوں کے لیے شرط ذرا مشکل تھی لیکن سوالات بچوں کی ذہانت اور ذہنی پختگی کے آئینہ دار تھے۔

ایک چھوٹے بچے نے ایک سائنس دان سے پوچھا کہ کیا مرغی پہلے پیدا ہوئی یا پہلے انڈہ پیدا ہوا تھا۔ وہ سائنس دان بھی غضب کے حاضر جواب نکلے۔

انہوں نے بچے سے کہا کہ 'اگر تم مجھے فرائی انڈے کو اصلی شکل میں بدلنے کی ترکیب بتادو تو میں تمہارے سوال کا جواب دے دوں گا۔' بچہ لاجواب ہوگیا۔

میرے لیے ان دس نوبل پرائز ونرز سے ہاتھ ملانے کا اعزاز کچھ کم نہیں تھا۔ اس سے پہلے میں ایک بھی نوبل پرائز یافتہ شخص سے کبھی نہیں ملا تھا۔

کئی سال بعد پروفیسر محمد یونس سے ملنے اور انٹرویو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا لیکن وہ بھی اس وقت جب انہیں نوبل انعام نہیں ملا تھا۔

اتفاق سے دوسری دفعہ جب ان کا انٹرویو کیا تو میں نے ان سے پوچھا آپ کو نوبل پرائز کب ملے گا؟ تو مسکرا کر کہنے لگے شاید اس کے لیے مجھے اور کام کرنا پڑے گا۔ تین ہفتے بعد انٹر نیٹ پر پڑھا کہ ان کو یہ اعزاز بھی مل گیا۔ اس سے پہلے وہ کئی انعامات حاصل کرچکے تھے۔

ہاں، تو ہم پھرانٹیل کے بین الاقوامی میلے کی طرف واپس آتے ہیں۔ سائنسی مقابلوں میں بچوں کے لیے کئی انعامات تھے لیکن سب سے زیادہ اہم تین گرینڈ پرائز تھے۔ ہرایک کی رقم پچاس ہزارامریکی ڈالر تھی جو ان کو اسکالر شپ کی شکل میں دیے گئے۔

ایک چینی بچی، ایک فلوریڈا سے آئی ہوئی امریکن بچی اورایک جرمن لڑکی کو انعامات ملے۔ چھوٹے انعامات کئی تھے۔ انعام یافتہ بچوں کی لمبی فہرست میں امریکہ میں مقیم دو پاکستانی بچے بھی تھے۔

اسلام آباد سے آئی بچی مہوش نورکو کوئی انعام نہیں ملا لیکن اس موقرمیلے میں شرکت بھی تو کوئی معمولی بات نہ تھی۔

اتنے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی سائنس میلہ منعقد کرنا اور وہ بھی اس خوبی کے ساتھ کہ کسی قسم کی بدنظمی نہ ہو، بڑا مشکل کام ہے۔

ایک، ایک مندوب کو ہوائی اڈے سے اس کے ہوٹل منتقل کرنا، میلے کے اختتام پرانہیں مقررہ وقت پر چھوڑنا، بذات خود خاصہ کٹھن کام ہے۔

آنے والوں میں نا صرف بچے بلکہ ان کے اساتذہ، جج حضرات، شرکت کرنے والے ملکوں کے کچھ اعلیٰ سرکاری ملازم، میڈیا کے لوگ اور دیگر خواتین اورحضرات بھی شامل تھے۔

خود انٹیل کے اپنے لوگ بھی دنیا کے مختلف حصوں سے آئے تھے۔ مجال ہے جو کوئی پروگرام ایک منٹ تاخیر سے شروع ہوا ہو۔ یہ سب دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ بعض ملک کیوں ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔

اگلے دو سال فینکس، انڈیانا پولِس میں بھی ان میلوں میں شرکت کا موقع ملا۔  ہرسال میلے میں شریک ہونے والوں کی تعداد بڑھتی ہی دکھائی دی۔ گرینڈ انعاموں کی تقریب بھی کم گرینڈ نہیں تھی۔

اس کے بعد ایک دعوت تھی جس میں میں شرکت نہیں کرسکا کیونکہ مجھ کو پوری کارروائی ڈان گروپ کے رسالے 'اسپائیڈر' میں بذریعہ ای میل بھیجنی تھی۔

ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ جب ہم اُنیس مئی کی صبح کو دفتر آئیں تو آپ کی رپورٹ ہمارے کمپیوٹر پر آجائے۔

وہ پریس سینٹرجہاں سے سب میڈیا والے اپنی خبریں بھیج رہے تھے، رات آٹھ بجے بند ہونے والا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ دعوت بھی بہت شاندار تھی لیکن مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ وقت مقررہ پر اپنی رپورٹ بھجوادی۔

سائنس میلے کی تقریب اورمصروفیات اتنی زیادہ تھیں کہ پورٹ لینڈ شہرکو نہ دیکھ سکا۔ دوپہر کی پرواز تھی اور مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے کے لیے تیٹھ ٹکنور آگئے۔

میں نے ہوٹل کا کمرہ دو گھنٹے پہلے خالی کردیا کیونکہ ٹکنور نے مجھے راستے میں پورٹ لینڈ کا مشہور جاپانی گارڈن دکھانے کا وعدہ کیا تھا۔

ٹکنور نے بتایا کہ یہ جاپان کے باہر سب سے بڑا اورعالی شان جاپانی باغ ہے۔ میرا نوجوان دوست باغ کی خوبیوں سے بخوبی واقف تھا۔ اس نے مجھے بہت ساری چیزی بتائیں اور سمجھائیں۔

ایک ’پوئٹری اسٹون‘ تھا جس پر کسی سنگ تراش نے نہایت مہارت کے ساتھ ایک ہائیکو نظم تراشی تھی ۔

ہائیکو جاپانی زبان کی روایتی تین لائنوں پر مشتمل نظم ہے جو اکثر کراچی میں جاپانی قونصل خانے کی تقریبات میں سنائی جاتی ہے۔ کچھ اردو شاعروں نے بھی اس صنف میں نظمیں کہی ہیں۔


آصف نورانی کراچی میں ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Raza Sep 25, 2012 03:13pm
Assalamu alaikum dawn group asif norany ki our books prhana chahtay hai. Murgi our andaa acha nahi laga magar yeh taswir kahani lekay tu zabardas lekhari asif norani jesa koi nahi.