بچہ پاکستان کو جھنڈا پکڑے ہوئے- فائل فوٹو

اسلام آباد: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد نے رمشا کیس میں گرفتار امام مسجد خالد جدون کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو گیارہ اکتوبر کو سنایا جائے گا۔

عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ حکم امتناعی پر مزید وضاحت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد راجہ جواد عباس نے رمشا مسیح کیس میں امام مسجد خالد جدون کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

دوران سماعت، خالد جدون کے وکیل واجد گیلانی، مدعی ملک عماد کے وکیل راؤ عبدالرحیم اور ڈسٹرکٹ اٹارنی محفوظ پراچہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے رمشا مسیح کی طلبی اور ٹرائل پر حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ خالد جدون کی درخواست ضمانت پر کوئی حکم امتناعی جاری نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے جس میں کسی عدالت نے درخواست ضمانت پر حکم امتناعی جاری کیا ہو۔

عدالت نے دونوں جانب کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو گیارہ اکتوبر کو سنایا جائے گا۔

یکم ستمبر کو پولیس نے امام مسجد خالد جدون کو گرفتار کرلیا تھا جب حافظ زبیر نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر رمشا کے تھیلے میں مقدس اوراق شامل کیے تھے۔

یکم اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں رمشا پر توہینِ مذہب کے مقدمے میں گرفتار امام مسجد خالد جدون کے خلاف دو گواہ اپنے بیانِ حلفی سے منحرف ہوگئے تھے۔

دوران سماعت استغاثہ کے دو گواہوں اویس اور خرم شہزاد نے نئے بیان حلفی جمع کرائے تھے۔ دونوں گواہوں نے عدالت میں بیان دیا کہ اس سے قبل جمع کرائے گئے بیانات، پولیس نے زبردستی ان سے تحریر کرائے تھے۔

عدالت نے خالد جدون کی درخواست ضمانت پرمزید سماعت تین اکتوبر تک ملتوی کردی تھی۔

ان گواہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ راکھ والے شاپنگ بیگ میں اوراقِ مقدسہ امامِ مسجد خالد جدون نے شامل کیے تھے۔

واضع رہے کہ اسلام آباد کے نواحی گاؤں میرا جعفرکی رہائشی مسیحی بچی کو سولہ جولائی کو ایک مقامی شخص کی شکایت پر پولیس نے توہین مذہب کے قانون کے تحت گرفتار کیا تھا۔

سات ستمبر کو عدالت نے رمشا کو پانچ پانچ لاکھ کے دو مچلکوں پر اڈیالہ جیل سے ضمانت پررہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

آٹھ ستمبر کو جیل سے رہا کرنے کے بعد رمشا کو سخت حفاظتی نگرانی میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں