ملتان: ایک اسکول کی طالبات ملالہ یوسف زئی کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔—اے ایف پی

سوات میں طالبان کے تاریک ایجنڈے کے سامنے مزاحمت کی علامت بن جانے والی ملالہ یوسف زئی پر بندوق سے حملے کی خبر پر پاکستان اور بیرونِ ملک سے نہایت جذباتی ردِ عمل سامنے آیا ہے۔   لڑکیوں کی تعلیم کی حامی اور طالبان پر سخت تنقید کرنے والی چودہ سالہ بچی کو گزشتہ کچھ عرصے سےعسکریت پسندوں سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ایسے میں یہ حملہ اور طالبان کی طرف سے اس کی ذمہ داری قبول کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔

حالانکہ اطلاعات کے مطابق، خود ملالہ کے خاندان کا بھی یہ خیال نہیں تھا کہ طالبان اُسے نشانہ بنائیں گے۔

تاہم ، ہمیں یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ پچھلے کئی سالوں سے عسکریت پسندوں کے اہداف میں تبدیلیاں آ چکی ہیں۔

ریاست اور فوجی تنصیبات  کے علاوہ انہوں نے ہسپتالوں، بازاروں اور مسجدوں پر بم حملے کیے، جس کے نتیجے میں ہزاروں شہری زخمی یا مارے جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ طالبان آئے دن کمیونٹی کی بہتری کے منصوبوں پر کام کرنے والوں کو دھمکاتے بھی رہتے ہیں۔

انتہائی رجعت پسندانہ خیالات کی وجہ سے ان کی جمہوریت، سیکولرازم  اور بنیادی آزادی کی پرتشدد مخالفت کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

اسی تنگ نظری کی بدولت انہوں نے دو ہزار اسکولوں کو ملبہ میں تبدیل کر دیا، جن میں سے زیادہ تر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مخصوص تھے۔

سوات میں طالبان دور میں متاثرہونے والے اسکولوں میں سے ایک اسکول ملالہ کے والد کے زیر انتظام تھا، جسے طالبان کے حکم پر بند کردیا گیا تھا۔

ملالہ پر ہونے والا حملہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے حالیہ مہینوں میں سوات میں ہونے والا تیسرا حملہ ہے۔ اس سے قبل طالبان نے ایک ہوٹل  کے مالک اور ہوٹل مالکان کی تنظیم کے سربراہ کو نشانہ بنایا تھا۔

کیا منگل کو منگورہ میں ہونے والا جرم سوات کو ایک بار پھر مذہب کے نام پر ظلم کے دور میں واپس دھکیل دے گا؟

ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ سیاحوں کی جنت سمجھا جانے والا سوات انتہائی شاندار انداز میں  معمول کی زندگی کی طرف لوٹا ہے. سن دو ہزار نو میں مُلا فضل اللہ اور اس کے کارندوں کے خلاف سوات میں فوجی آپریشن کامیابی کی ایک داستان تھی۔

اس آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں کا قریب واقع افغان سرحدی صوبے تک پیچھا کیا گیا تھا، جہاں سے اب یہ لوگ پاکستان کی حدود میں فوج پر حملے کرتے ہیں۔

یہ حملے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ تاحال انہیں مکمل طور پر شکست نہیں دی جا سکی۔

اُن کے بھاگ جانے کے بعد سوات میں عمومی طور پر امن قائم ہو گیا، علاقے میں مقامی سیاحوں کی آمد کے علاوہ فلاحی کام دوبارہ شروع ہوگئے۔

صورتِ حال میں اس تبدیلی کا سہرا زیادہ تر سوات کے اُن لوگوں کے سر ہے جنہوں نے نا صرف طالبان دور میں اپنا معاش تباہ ہوتے اور روایتی طرزِ زندگی کو بگڑتا دیکھا بلکہ وہ روزانہ ہی عسکریت پسندوں کا ظلم و بربریت سہتے رہے۔

تاہم، سوات کے حوالے سے کلی طور پر مطمئن ہونے کی گنجائش نہیں ہے ۔ اِکّا دُکّا ہونے والے اہدافی حملے اس بات کا اشارہ  ہوسکتے ہیں کہ طالبان کو اب بھی علاقے میں حمایت حاصل ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ منظم انداز میں خفیہ معلومات اکھٹی کی جائیں اور اس بنیاد پر ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے جو ایک بار پھر ملالہ جیسے ہزاروں لوگوں کے خوابوں کا خون کرنا چاہتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں