۔— اے پی فائل فوٹو

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی مثال گھڑیال کے اس گھنٹے کی مانند ہے جو کھبی اس کے ہونے اور کبھی نہ ہونے کےدرمیان جھولتا رہتا ہے۔

تھوڑی دیر کے لیے اس کا جھکاؤ آپریشن ہونے کے جانب دکھائی دینے لگا تھا تاہم اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ آپریشن کے نہ ہونے کی جانب اٹک گیا ہے۔

فوج نے اس دعوی کے بعد کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ' سیاسی فیصلہ' ہے، گیند سول قیادت کی طرف اچھال دی ہے۔

دوسری جانب، سیاسی قیادت ابھی تک گو مگوں کی کیفیت میں ہے اور ایسے میں عموماً وزیر داخلہ رحمان ملک کو آگے کردینے سے ابہام مزید بڑھ جاتا ہے ۔

اصولی طور پر تو شمالی وزیرستان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ سول قیادت کی ذمہ داری ہے لیکن قابلِ قبول صورت یہ ہونی چاہیے کہ سیاسی قیادت فوج کے ساتھ باہمی مشاورت کے بعد اس کا فیصلہ کرے ۔

جبکہ حقیقت میں تو اس حوالے سے آخری فیصلہ خود فوج ہی لے گی۔ یہ حقیقت انتہائی اہم ہے۔

فوج کا کہنا ہے کہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے 'قومی اتفاقِ رائے' پیدا کرنا نہایت ضروری ہے، لیکن کیا فوج کی قیادت میں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے خود 'قومی اتفاقِ رائے' پیدا کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں؟

ماضی میں ملک کے شمال مغربی حصوں میں ہونے والے فوجی آپریشنز کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا جواب نہایت سادہ ہے اور وہ یہ کہ کچھ زیادہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

جہاں شمالی وزیرستان میں ہر طرح کے شدت پسند پاکستان کی سرزمین پر، افغانستان اور اس سے بھی آگے اپنی قوت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہیں یہ علاقہ معلومات کا اندھا کنواں بھی ہے کیونکہ یہاں سے کسی قسم کی معلومات باہر نہیں آتی ۔

نجی طور پر سیکورٹی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کو واپس معمول کی طرف لانے کے لیے جلد یا بدیر ان شدت پسندوں سے مقابلہ کرنا ہی ہو گا۔

سینئر سیکورٹی حکام نجی طور پر یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ القاعدہ سے لے کر حقانی گروپ تک، اور پنجابی طالبان سے لے کر دوسرے ملکوں باشمول مالدیپ – جی ہاں مالدیپ تک - کے غیر ملکی عسکریت پسند پاکستان کو سوڈان جیسی صورتِ حال سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔

ازبک، چیچن، اور عرب عسکریت پسند گرہوں کی موجودگی میں شمالی وزیرستان دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا عالمی مرکز بن چکا ہے۔

لیکن شمالی وزیرستان سے جڑے خطرے اور اس کو حل کرنے کے طریقوں کے بارے میں پاکستانی عوام کو آگاہ کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

تو پھر ایسے میں، فوجی آپریشن کے لیے کس طرح قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جاسکے گا؟

ہمیں تو یہ بھی انداز نہیں ہے کہ فوج نے اس خطرے سے نبر آزما ہونے کے لیے کیاحکمتِ عملی ترتیب دی ہے۔

کیا حقانی نیٹ ورک پر کسی قسم کے فوجی یا مالی دباؤ کے کچھ اقدامات زیرغور ہیں؟

کیا ہماری پالیسی یہ ہے کہ سست روی سے عارضی طور پر کچھ گروپوں پر فتح حاصل کرکے دوسرے گروہوں سے لڑائی کے لیے راستہ بنایا جائے؟

کیا ایسا کوئی منصوبہ زیر غور ہے کہ لڑائی والے علاقے میں موجود شدت پسند قیادت کو دوسرے ملحقہ علاقوں میں فرار ہونے سے روکا جا سکے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے؟

اگر پاکستانیوں کو کچھ بھی نہیں بتایا جائے گا، تو وہ اس معاملے پر عمومی اتفاقِ رائے کیسے پیدا کرسکیں گے؟

تبصرے (0) بند ہیں