ہمارے قانون سازوں کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ بھوک کا مسئلہ آگے چل کر کیا رنگ لا سکتا ہے۔— رائٹرز فوٹو

یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں جب عام تاثر تھا کہ پاکستان میں غربت زیادہ ہونے کے باوجود تھوڑے لوگ ایسے تھے جنہیں رات کو بھوکے پیٹ سونا پڑتا تھا۔

زراعت ہمارے ملکی معیشت کی بنیاد ہونے کی وجہ سے وہ واحد شعبہ تھا جو بڑے پیمانے پر روزگار کی فراہمی کا وسیلہ تھا۔

اسی شعبے کی وجہ سے شہریوں کی اکثریت کو بنیادی نوعیت کی خوراک با آسانی دستیاب تھی، مگر اب صورتِ حال پہلے جیسی نہیں رہی۔

گزشتہ کئی سالوں سے ایسے لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے جنہیں مطلوبہ مقدار میں خوراک میسر نہیں۔ حتیٰ کہ متوازن خوراک کے معاملے میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی حالات سے سمجھوتے پر مجبور ہیں۔

خوراک کی قلت کےحوالے سے غریبوں کو درپیش صورتِ حال انتہائی خطرناک ہو چکی ہے اور پچھلے کچھ عرصے سے مختلف گروپوں نے خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں۔

گزشتہ سال یونیسیف نے، سندھ میں سیلاب کے بعد خوراک کی فراہمی کی صورتِ حال کو نائیجر اور چاڈ میں درپیش حالات سے تشبیہ دی تھی۔

دوسری جانب آکس فیم نے کہا تھا کہ پاکستان میں ایک تہائی سے زائد لوگوں کو ضرورت سے کم مقدار میں خوراک میسر ہے۔

اس سال کے اوائل میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق ملک میں دو تہائی اکثریت اپنی کُل آمدنی کا پچاس سے ستر فیصد حصہ صرف خوراک پرہی خرچ کردیتی ہے۔

چونکا دینے والے ان تلخ حقائق کے باوجود، پاکستان متوازن خوراک کی فراہمی اور بھوک کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بنانے میں ناکام نظر آتا ہے۔

اس حوالے سے مختلف کمیٹیاں قائم کی گئیں، لوگوں کو مقرر کیا گیا، اِدھر اُدھر بہت ساری کاغذی کارروائیاں بھی دیکھنے میں آئیں، مگر زمینی سطح پر بہت زیادہ فرق نظر نہیں آیا۔

منگل کو وفاقی وزیر برائے تحفظِ قومی خوراک و تحقیق میر اسراراللہ زہری نے سینٹ میں بتایا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کیا جانے والا قومی خوراک سروے دو ہزار گیارہ کے مطابق ملک کے اٹھاون فیصد باشندوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔

اسی طرح تیس فیصد باشندے ایسے ہیں جو خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔

اگرچہ سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے ملک سے بھوک ختم کرنے کے لیے 'نیشنل زیرو ہنگر پروگرام' کا اعلان کیا تھا مگر بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نظر نہیں آیا۔

زہری نے رواں ہفتے سینٹ اجلاس میں تسلیم کیا کہ یہ پروگرام اب تک منظوری کا منتظر ہے۔

دوسری جانب، عالمی ادارہ برائے خوراک کے تیار کردہ 'زیرو ہنگر ایکشن پلان' میں اب تک آپریشن کی تفصیلات کا فقدان ہے۔

بہت زیادہ وقت برباد ہو چکا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قانون سازوں کو ذرا سا بھی اندازہ نہیں کہ جب اگلے وقت کھانا ملنے کا آسرا نہ ہو تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں