Gen-kayani-670
پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی۔— فائل فوٹو

مبارک ہو ہمیں اور آپ کو! آخرکار ''بلڈی سویلین'' کے عہدے سے ''ایڈیٹ'' پر ترقی مل ہی گئی.

اس ترقی کا فیصلہ اس وقت ہوا جب میڈیا نےلیفٹننٹ جنرل(ر)جاوید اشرف قاضی سے یہ پوچھنے کی جسارت کر ڈالی کہ حضور سنا ہے کہ اپ کے دورانتظام میں ریلوے کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا گیا؟

اصل میں غلطی جنرل صاحب کی بھی نہیں ہے غلطی اس سوچ کی ہے جس کے تحت ملک کا ایک طبقہ اپنے آپ کو سوالات سے ماورا جانتا ہے کیوں کہ بہرحال ملک کا ''وسیع تر قومی مفاد'' میرے اور آپکے ''شٹ اپ'' ہونے میں ہی ہے.

ابھی اس ترقی کی خوشی سے سہی طرح پھولے بھی نہ سما پائے تھے کہ دوسرے جنرل صاحب (لیفٹیننٹ جنرل (ر) سعید الظفر) نے عوام کو الماس بیگم (الماس بوبی) کے حق میں اپنا ووٹ ڈالنے کا قیمتی مشورہ دے ڈالا. وہ بھی مفت! اگر اپ الماس بوبی کو نہیں پہچانتے تو آپکے علم میں اضافے کے لئے بتاتا چلوں کہ یہ پاکستان کے بہت مشہور اور متحرک خواجہ سرا ہیں.

جمہوری نظام کے بارے میں جنرل صاحب کے اس طنزومزاح (جو کہ انکے اندازگفتگوسے بلکل بھی نہیں ظاہر ہوتا تھا کے موصوف اپنے اندرحس مزاح بھی رکھتے ہیں جسے اس سے پہلے صرف ذہین افراد ہی اپنی میراث سمجھنے کی جسارت کرتےتھے).

دوسری طرف NLC کیس میں دھرے گۓ سابق جرنیلوں کو دوبارہ وردی پہنا کرانکا احتساب کرنے کا طریقہ بھی پاکستان سے خاص ہی لگتا ہے جہاں کے جرنیلوں کا احتساب کرتے ہوۓ تو وردی پہنا دی جائے لیکن سیاستدانوں کا احتساب کرتے ہوۓ بیچاروں کے کپڑے تک اتارلئےجائیں.

پریہ باتیں اب ماضی کا حصہ ہیں جنھیں بھول جانے کا مشورہ فوج کے موجودہ سربراہ نے اپنے حالیہ بیان میں دیا ہے!!! لیکن حضور آپ میڈیا کو جھنجھنا دیں گے تو وہ تو اسے بجائےگا ہی!

اسی بیان کے مطابق ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی ملک ایک نازک دور سےگزر رہا ہے!! کیوں کہ جیسےقومی مفاد کا تعین کرنے کا کام پہلے ہماری فوج نے اپنے ذمہ لےرکھا تھا ویسے ہی اب شاید ''نازک دور'' کا تعین بھی بوجہ مجبوری ان ہی کے مضبوط کاندھوں پرآ پڑا ہے اگرچہ ''قومی مفاد'' کے سلسلے میں جنرل صاحب نے فیاضی دکھاتے ہوے کم ازکم میڈیا کی حد تک تو کہہ ہی دیا ہے کہ فوج اس کیک میں سے سب کو حصّہ دینے پرتیارہے.

باقی نیتوں کا حال الله کی ذات جانتی ہے! لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ فوج نے جنرل کیانی کی قیادت میں پہلی دفعہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف تو کیا پر ساتھ ہی ساتھ عدلیہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جن کے چند فیصلوں اوربلوچستان FC کولائن حاضر کروانے اور خفیہ ایجنسیوں سےلاپتہ افراد کے معاملے میں پوچھ گچھ سے فوج میں بےچینی کی لہر دوڑی ہے جس کااظہار جنرل کیانی نے کر ڈالا ہے.

یہ بات بھی زیرنظر رکھنی چاہئے کہ ہماری فوج کی موجودہ قیادت نے کافی حد تک اپنے آپ کو سیاسیات سے دور ہی رکھا ہے، اگرچہ اس احسان کو کئی دفعہ جتایا بھی جا چکا ہے، جہاں تک تعلق کچھ ایسی مثالوں کا ہے جو آپکے ذہن میں آ رہی ہیں تو اسکے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ پرانی عادتیں مشکل سے جاتی ہیں!!

اس بیان سےعدالت اورفوج میں کسی تصادم کا خطرہ نہیں اگرچہ اس سے کچھ لوگوں میں مایوسی پھیلنے کا خدشہ بھی ہے لیکن سامنے آنے والے حقائق سے تو یہی لگتا ہے کہ آرمی چیف کا بیان عدالت اور میڈیا سے شکایت کے زمرے میں تو ڈالا جا سکتا ہے پر اس بیان پر خواھشات کی سیخیں چڑھانا بدنیتی کا مظہر ہے.

پاکستان اس وقت تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے جہاں ہرادارہ اپنے اختیارات کی حد بندی کرنے میں مصروف ہے اور ایسے میں ظاہر سی بات ہے کہ کچھ شکایات بھی پیدا ہو سکتی ہیں، رہی جہاں تک بات اس شکایت کی کہ ملزم اور مجرم میں فرق رکھنا چاہئے تو یہ عین انسانی اخلاقیات کے مطابق ہے.

دوسرے اداروں کی طرح میڈیا بھی سیکھنے کےعمل سے گزررہا ہے اور اس دوران غلطیاں ہونے کا احتمال بھی ہے لیکن ان غلطیوں کو غلطیاں ہی سمجھنا چاہئے نہ کہ جواباً غداری اور غیرملکی طاقتوں کے ہاتھ میں کھیلنے کا لیبل چسپاں کر دیا جائے.

پاکستان کی عوام اور میڈیا افواج پاکستان کی قربانیوں کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور اسے خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں. آئیے مل کر پاکستان کی تعمیر کریں کیوں کہ اس بار واقعی پاکستان ایک نازک دور سے گزررہا ہے!


علی منیر میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

خواجہ شجاع عباس Nov 13, 2012 12:13pm
"گر تو برا نہ مانے'' دل کو چھونے والا مضمون ہے.پاکستان کا ابلاغ اور رائےعامہ بلوغت سے ہمکنار ہوچکا ہے.عدلیہ،ابلاغ اور عوام دستور کے پاسبان ہیں.وہ کسی کو اسے پامال کرنے نہیں دین گے.