۔ — فائل فوٹو

ڈیرہ اسماعیل خان:ڈیرہ اسما عیل خان میں کچرے کے ڈھیر میں چھپائے گئے بم کے پھٹنے سے چار بچوں سمیت نو افراد ہلاک جبکہ ایک پولیس اہلکار سمیت اٹھارہ زخمی ہو گئے جبکہ تحریک طالبان پاکستان نے دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔

ہفتہ کو دھماکہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے نواحی علاقہ تھویا فاضل کے قریب اس وقت رونما ہوا جب علاقہ کی امام بارگاہ سے عزاداروں کی ایک ٹولی مرکزی ماتمی جلوس میں شرکت کے لیے آ رہی تھی۔

اس دوران مبینہ طور پر کوڑے کے ڈھیر میں چھپائے گئے بم کے دھماکہ سے ٹولی میں شامل چار بچوں سمیت نو افراد ہلاک ہو گئے۔

زخمیوں کو فوراً ڈسٹر کٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لایا گیا جہاں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ دو شدید زخمیوں کو فوری طور پر ملتان روانہ کر دیا گیا۔

ڈان ڈاٹ کام کے نمائندے نے سرکاری حکام کے حوالے سے بتایا کہ حملے میں آٹھ سے دس کلو گرام وزنی دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔

واقعہ کے فوراً بعد سیکورٹی فورسز کے دستوں نے علاقہ کو گھیرے میں لے لیا اور شہر میں بھی سیکورٹی فورسز نے گشت شروع کر دیا۔

پولیس حکام نے جائے وقوعہ سے ایک مشبتہ شخص کو بھی حراست میں لیا ہے۔

شہر میں عزاداران کے علاوہ کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ علاقے میں موبائل سروس بھی بند ہے۔

طالبان نے ذمے داری قبول کرلی:

دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمے داری قمول کر لی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے دھماکے کے بعد نامعلوم مقام سے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نے حملے میں شیعہ برادری کو نشانہ بنایا"۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے ملک بھر میں شیعہ برادری کو نشانہ بنانے کیلیے 20 خود کش بمباروں کو روانہ کیا ہے۔

احسان نے کہا کہ "ہمارے پاس ملک بھر میں بم دھماکے اور خود کش حملے کرنے کیلیے بیس سے زائد خود کش بمبار موجود ہیں"۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہے کتنے ہی سیکیورٹی انتظامات کیوں نہ کرلے لیکن وہ ہمارے حملوں کو نہیں روک سکتی۔

یاد رہے کہ پاکستانی طالبان نے اس سے قبل جمعرات کو راولپنڈی میں اہل تشیع کے جلوس پر ہونے والے حملے کی ذمے داری بھی قبول کی تھی جس میں 23 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

mohammad jehangir Nov 24, 2012 10:08am
اس وقت دنیا کو سب سے بڑا درپیش چیلنج دہشت گردی ہے اس پر سب متفق ہیں۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان،لشکر جھنگوی اور دوسری کالعدم جماعتیں اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلاجبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔ مذہب، عقیدے اور کسی نظریے کی بنیاد پر قتل وغارت گری اور دہشت گردی ناقابل برداشت ہے ۔ جسکی اسلام سمیت کسی مہذب معاشرے میں گنجائش نہیں۔ طالبان ایک رستا ہوا ناسور ہیں اور اس ناسور کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز دہشت گرد قومی وحدت کیلیے سب سے بڑاخطرہ ہیں۔ اسلام امن،سلامتی،احترام انسانیت کامذہب ہے لیکن چندانتہاپسندعناصرکی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کاامیج خراب ہورہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے ۸۰ فیصد دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے وزیرستان سے ملتے ہیں۔ طالبان کا یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزان ہو گیا ہے اور طالبان دائین بائیں صرف مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔ بچوں اور بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔طالبان انسان کہلانے کے بھی مستحق نہ ہیں۔ انتہاء پسندي اور خود کش حملے پاکستان کو غير مستحکم کرنيکي گھناؤني سازشوں کا تسلسل ہيں اور جو عناصر دين اسلام کو بدنام کرنے اور پاکستان کو غير مستحکم کرنے کيلئے بے گناہ شہريوں کو خاک و خون ميں نہلا رہے ہيں وہ انسانيت کے دشمن ہيں۔ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور تشدد آمیز مذہبی انتہا پسندی نے اس ملک کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ یہ وہی عسکریت پسند ہیں جنہوں نے ریاست اور اس کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر رکھاہے ۔اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو ہم ان مسلح حملہ آوروں کے خلاف لڑیں یا پھر ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں جو پاکستان کو دوبارہ عہدِ تاریک میں لے جانا چاہتے ہیں۔طالبان پاکستان کی ریاست اور اس کے آئین کی بالادستی کو رد کرتے ہوتے اپنی مذہبی سوچ کو دوسروں پر زبردستی نافذ کرنا چاہتے ہیں. اگر ریاست مسلح عسکریت پسندوں کو اس بات کی اجازت دے دے کہ وہ درندگی کے ساتھ عوام پر اپنی خواہش مسلط کریں تو ایسی ریاست اپنی خودمختاری قائم نہیں رکھ سکتی .صلح جوئی کی پالیسی نے ملک کو پہلے ہی بھاری نقصان پہنچایا ہے جس کی قیمت ہم انسانی جانوں کی زیاں نیز معاشرے اور معیشت پر اس کے برےاثرات کی شکل میں ادا کر چکے ہیں . بم دھماکے کھلی بربریت ہیں اور دہشت گرد عناصر شہر میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے ملک میں انتشار پیدا کررہے ہیں۔ دہشت گرد اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں اور ان کو مسلمان تو کجا انسان کہنا بھی درست نہ ہے اور یہ لوگ جماعت سے باہر ہیں۔ ہمیں ان سب کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ بزدل قاتل اور ٹھگ ہیں اور بزدلوں کی طرح نہتے معصوم لوگوں پر اور مسجدوں میں نمازیوں پر آ گ اور بارود برساتے ہیں اور مسجدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہیں۔ اس طرح یہ پاکستان کے دشمنوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ آج دہشت گردی، شدت پسندی اور فرقہ واریت نے قومی سلامتی کیلئے خطرہ پیدا کردیا ہے جس کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ مذہبی انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی پاکستانی ریاست اور معاشرہ کے لئے بڑے خطرے ہیں۔ اگر ان کی روک تھام کی طرف مکمل توجہ نہ دی گئی تو پاکستان ایک غیر موثر ریاست بن جائے گا اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا ....................................................................... اقبال جہانگیر کا تازہ ترین بلاگ : محرم الحرام میں دہشت گردی http://www.awazepakistan.wordpress.com