ملالہ یوسفزئی جسے اکتوبر میں تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں نے اسکول بس میں نشانہ بنایا تھا۔ فائل فوٹو۔۔۔

واشنگٹن: سوات سے تعلق رکھنے والی قومی امن ایوارڈ یافتہ طالبہ ملالئے یوسفزئی کو فارن پالسی میگزین کے دو ہزار بارہ کے سو عالمی مفکروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رکھا گیا۔ اس طرح وہ امریکی صدر بارک اوبامہ سے سے آگے نکل گئیں جو ساتویں نمبر پر ہیں۔

اس فہرست میں شامل دوسرے پاکستانیوں میں امریکا کے لیئے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اور ان کی اہلیہ فرح ناز اصفہانی اور بلاگر ثناء سلیم  شامل ہیں۔

فارن پالیسی میگزین کی یہ فہرست ہر سال جاری کی جاتی ہے جس میں دنیا بھر سے ان بڑی بڑی شخصیات کو منتخب کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے شعبوں میں جدوجہد کی اور ان کی سوچ عالمی کمیونٹی کومتاثر کرنے اور ان میں تبدیلی کا سبب بنی۔

فہرست میں میانمر کی رہنما آنگ سان سو کی بھی شامل ہیں جنہوں نے جمہوریت کی کوششوں کی پاداش میں طویل عرصہ قید میں گزارا۔ اس کے علاوہ میانمار کے سابق جنرل اور اصلاح پسند صدر تھین سین بھی فہرست میں شامل ہیں۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن، امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے بعد چھٹے نمبر پر ملالہ یوسف زئی کھڑی ہیں جہاں امریکی صدر باراک اوباما کو ملالہ یوسف زئی کے بعد جگہ ملی ہے۔

ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کا نام بھی فہرست میں شامل ہے۔

گزشتہ سالوں میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، بیرسٹر اعتزاز احسن اور موجودہ امریکی سفیر شیری رحمان کا نام بھی اس فہرست میں شامل کیا جاچکا ہے۔

تبصرے (5) بند ہیں

حسین عبداللہ Nov 27, 2012 02:23pm
ملالہ یوسف زئی پر حملہ کے بعد ہمارے معاشرے کے لئے وہ ایک سمبل بن گئی ہے علم و دانش سکول اور کالج کی لیکن اب ڈر یہ ہے کہ حدسے زیادہ ملالہ کا ورد اور خاص کر وہ بھی یورپ اور امریکہ کی جانب سے ملالہ کو متنازعہ تو بناگیا ہے اب اللہ نہ کرے کہ پاکستانی عام آدمی کی رائے بھی تبدیل ہونہ جائے اور وہ شدت پسندوں کی سوچ سے ہم آہنگ بن جائیں کیونکہ جو یورپ اور امریکہ کا ہیرو ہوگا وہ یہاں پسندیدہ ہرگز نہیں بن سکے گا تو اب ملالہ صاحبہ عوامی ملالہ سے نکل کر سرکاری اور امریکی و یورپی ملالہ بن رہی ہے
ولی خان دومڑ ، کراچی Nov 28, 2012 04:08am
حسین عبداللہ بھائی ملالئی یوسفزئی حقیقت میں بھی ایک مفکر ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ ، یورپ اور امریکا کی جانب سے ملالئی کی تعلیمی کاوشوں کو سراہنے کی وجہ سے انکے بارے میں عام آ دمی کی رائے بھی تبدیل ہو جا ئیگی تو ایسا نہیں ہوگا ، ویسے اس ملک میں معصوم ملالہ سے زیادہ عافیہ صدیقی اور طالبان کے ہمدرد زیادہ ہیں اب تحریک انصاف ،جماعت اسلامی والے تو اپنا کام کرتے رہینگے اور ملا ہر جمعہ کو منبر پر بیٹھ کر معصوم ملالئی کے خلاف بولتے رہیں گے۔ ان لوگوں نے تو عید کے خطبے میں بھی ملالہ کو نہیں بخشا اور عام لوگ انکی زیادہ سنتے ہیں مگر ہم اور آپ جیسے لوگ جہنو ں نے ملالہ کیلئے آنسو بہائے ہیں انکی رائے کبھی بھی نہیں بدلے گی
حسین عبداللہ Nov 28, 2012 07:33am
آپ نے صحیح کہا دوست لیکن میں اس پس منظر میں بات کررہا ہوں کہ جو ملک کی اکثریت کو لیے ہوئے ہے کیونکہ امریکہ اور یورپ ملالہ یوسفزئی کی حد سے زیادہ پرچار کرینگے تو یہ ہماری بیمار اکثریت فورا اسے سازش قراردینگے جیسے کہ اس وقت ہو رہا ہے ہمارے پاس ایک اچھا موقع تھا کہ نئی نسل کی سوچ خاص کر متاثرہ شدت پسند علاقوں میں تبدیل کرسکتے تھے اور یہ بات پیش نظر رہے کہ تبدیلی کے لئے رول ماڈل سب سے اچھا راستہ ہوا کرتا ہے اور وہ رول ماڈل ملالہ جیسی ہونہار لڑکی بن چکی تھی جسے اب متنازعہ بنادیا گیا
omarfarooq Nov 28, 2012 06:35pm
malala pe hamla taalibaan ne nahi balke america ne krwa ya tha ye sb taaliban ko baDnaam krne ki sazish thi or media ne is me pura kirdaar ada kiya.......
حسین عبداللہ Nov 29, 2012 03:56am
طالبان اور امریکہ قینچی کے دو حصے ہی تو ہیں جو ملکر کام کرتے ہیں امریکہ ٹاسک دیتا ہے طالبان پورا کرکے ذمہ داری قبول کرتے ہیں جیسے ملالہ کی ذمہ داری قبول کی اور ہزاروں واقعات کے بعد مسٹراحسان اللہ احسان میدان میں کود کر امریکی وفاداری کا اظہار کرتا ہے طالبان اب ایک پیشہ ورمجرم بن چکے ہیں یہ وہ نظریاتی طالبان نہیں رہے جو کبھی افغانستان میں ہوا کرتے تھے