پاکستان اور افغان کے اعلیٰ سطح کے وفد کے درمیان میٹنگ جاری ہے۔ فوٹو اے ایف پی۔۔۔

اسلام آباد: پاکستان نے افغان حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات کو معنی خیز بنانے کیلیے مزید طالبان قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔

یہ اعلان جمعے کو پاکستانی کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور ان کے افغان ہم منصب زلمئی رسول کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات کے بعد کیا گیا۔

ابھی تک متوقع طور پر رہا کیے جانے والے طالبان قیدیوں کی تعداد نہیں بتائی گئی ہے تاہم مذاکرات میں 2010 میں پکڑے جانے والے طالبان کے دوسرے اہم رہنما ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کو زیر غور نہیں لایا گیا۔

ایک سینئر پاکستانی سیکیورٹی آفیشل نے اس سے قبل اے ایف پی کو بتایا کہ "ابھی تک برادر کی رہائی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا"۔

ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے مزید قیدی رہا کرنے، روابط کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ طالبان سے القاعدہ کے تعلق کو ختم کرنے پر زور دینے کے حوالے سے رضامندی ظاہر کی ہے۔

رواں ماہ میں یہ افغانستان کے کسی اعلیٰ سطح کے وفد کا دوسرا دورہ ہے جس کا مقصد قیام امن کیلیے طالبان رہنماؤں کی رہائی یقینی بنانا ہے۔

دو ہفتے قبل پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے وفد کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں 9 طالبان قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔

افغان حکام کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان میں قید سینئر طالبان رہنماؤں کو رہا کر دیا جائے تو وہ شدت پسندوں کو مذاکرات کیلیے رضامند کر سکتے ہیں تاکہ 2014 میں نیٹو کے افغانستان سے متوقع انخلا سے قبل ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری جنگ کو ختم کیا جا سکے۔

رسول نے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "میں امید رکھتا ہوں کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ امن کیلیے اہم اقدامات اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور جو کوئی بھی امن مذاکرات کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے وہ آگے آئے"۔

ایک افغان آفیشل نے ملاقات سے قبل اے ایف پی کو بتایا تھا کہ رسول برادر سمیت مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔

تاہم ایک سینئر پاکستانی آفیشل نے اے ایف پی کو بتایا کہ ابھی تک برادر کی رہائی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

آفیشل نے کہا کہ "ہم اس اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اب وہ کس حد تک اہم ہیں کیونکہ پاکستان کا ماننا ہے کہ اب شاید ان کا اتنا اثرورسوخ نہ ہو جتنا دو سال قبل کراچی میں گرفتار ہونے سے پہلے تھا"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں