السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

باقی دنیا  میں تو چھٹی منائی جاتی ہے۔ ہمیں چونکہ کھانے پینے سےزیادہ چاہ ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں چھٹی بھی کھائی جاتی ہے۔ باقی دنیا میں لوگ پانچ دن کام کرتے ہیں اور دو دن چھٹی مناتے ہیں۔

ہمارے ہاں کام کرنے کا رواج تو ویسے بھی کم ہے اور کام نہ کرنے کے بہانے ہیں ہزار۔ ویسے کام کا ذکر اگر کہیں پایا جاتا ہے تو صرف قائد کے فرمان میں۔ ’کام ، کام اور صرف کام!‘ یہ فرمان  اب زیادہ تر سرکاری دفاتر اور سرکاری اسکولوں کی بوسیدہ دیواروں پردکھائی دیتا ہے۔ جن پر عمل نا ہی اسکولوں میں ہوتا ہے نا ہی دفاتر میں۔

کام اس ملک میں صرف ایک غریب کرتا ہے دوسری عورت، کہ جس کے کام کا نا کوئی مول ہے نا ہی قدر۔ غریب کے بھی کام کی کو ئی قیمت نہیں اس لیے جتنا بھی کرلے غریب ہی رہتا ہے۔

پہلے تو چھ دن کام  کے اور ایک دن چھٹی کا  ہوتاتھا۔ اور وہ چھٹی بھی اتوارکو ہوتی تھی۔ لیکن پھر مومنین کی آمد سے چھٹی بھی اتوار سے جمعے کو ہونے لگی۔ 1994 میں بینظیر صاحبہ کی سرکار کے کسی امریکہ پلٹ مشیر کو خیال آیا کہ ہماری قوم کو بھی پانچ دن کام اور دو دن آرام کرنا چاہیئے۔ اس بچارے کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ تو باقی دنوں میں بھی کام نہیں کرتے۔

پھرجب ان چھٹیوں کا نفاذ ہوا تو آرام پسند قوم کو اور بھی آرام آگیا۔ کام تو  ہم ہفتے بھر میں اگر دو دن بھی کرلیتے تھے تو بڑی بات ہوتی تھی اور سرکاری دفاتر میں تو کام پہلے بھی کچھوے کی چال سے ہی ہوتا آیا ہے۔ ہفتے کی دو چھٹیوں سے تو سب کے وارے نیارے ہوگئے۔

ویسے آجکل بھی وفاقی کابینہ نے بجلی بچانے کے بہانے دو دن چھٹی کا اعلان کیا ہوا ہے۔ صوبوں نے تو گھاس نہیں ڈالی۔ البتہ وفاقی ادارےسرکار کی بجلی بچار ہے ہیں اورساتھ میں دو دن کی چھٹی بھی کھا رہے ہیں۔ سب سے  زیادہ برا جو ہورہا ہے وہ یہ کہ بینک بھی بند رہتے ہیں۔ دھیرے دھیرے کچھ پرائیویٹ بینکوں نے ہفتے والے دن بینک کھولنے شروع کیے ہیں۔ البتہ اکثر بینک دو دن کی چھٹی کھاتے ہیں اور میرے اور آپ جیسے اکثر لوگوں کے ساتھ یہی ہورہا ہے کہ اگر جمعے کو  بینک سے پیسے نکالنا بھول جائیں  توباقی کے دن مشکل میں پڑجاتے ہیں۔

ویسے آپ کو مشکل میں ڈالنے کے لیے اور بھی بہت سےطریقے ہیں۔ کسی مہینے میں اگر دو چھٹیاں ساتھ آرہی ہیں تو سرکار اس کے آگے پیچھے ایک دن کی چھٹی اور نتھی کردیتی ہے تاکہ اس کے بہت زیادہ محنت کرنے والے ملازمین اور بھی آرام سے رہیں اور اپنے گاؤں گوٹھ سے بھی ہو آئیں۔

سندھ کی عوامی سرکار تو جب سے آئی ہے۔ چھٹیوں پر چھٹیاں کیے جا رہی ہے۔جب دل چاہا چھٹی کا اعلان کردیتے ہیں۔ اب تو قوم کو بھی پتہ لگ گیا ہے کہ یہ جو دو چھٹیاں آرہی ہیں اس کے ساتھ دو تین اور چھٹیاں  ضرور ملیں گی اور اگر نہیں بھی ملیں گی تو کر ہی لیتے ہیں۔ ویسے بھی یہاں کون پوچھتا ہے۔ اور اپنے رحمان ملک تو ہیں ہی۔ وہ چاہیں تو قوم کو ہفتہ بھر گھر بٹھا سکتے ہیں۔

رحمان ملک ہوں، قائد ِتحریک ہوں یا پھرمولوی حضرات، اگر حساب لگائیں تو سال میں ان کی مہربانی سے پہیہ اکثر جام رہتا ہے۔ کسی نا کسی کو شہید کرکے دو چار دن تو قوم کو گھر بٹھا ہی دیتے ہیں۔ آئے دن کوئی سوگ منا رہا ہوتا ہے تو کوئی احتجاج  اور ہڑتال کروا رہا ہوتا ہے۔ دو چار گاڑیاں جلا دیتے ہیں اور پہیہ خود ہی جام ہوجاتا ہے۔ کتنے اربوں کھربوں کا نقصان سال بھر میں ہوتا ہے۔ اس کا کوئی بھی حساب نہیں رکھتا۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

کہتے ہیں کہ کراچی جو اس ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کی ساٹھ فیصد سے زیادہ انڈسٹری یہاں سے کوچ کرچکی ہے۔سرمایہ دار اب پیسہ دوسرے شہروں تو کیا دوسرےملکوں میں لگا رہے ہیں۔ آجکل بنگلہ دیش سرفہرست ہے۔ اب تو ہندوستان نے بھی اجازت دیدی ہے پیسہ لگانے کی۔

ادھر سرکارخود بھی چھٹی کی شوقین ہے تو قوم کو بھی اسی راستے پر لگا دیا ہے۔ باقی جو پرائیویٹ اداروں میں ہیں ان کے پاس بھی، ٹریفک، سی این جی، ہنگامے، ہڑتال اور ایسے لاکھ بہانے ہیں۔

تعلیم کا تو جو حال ہورہاہے اس کے اثرات بھی آہستہ آہستہ نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ صرف پرائیویٹ اور ایلیٹ اسکولز میں یہ ہوتا ہے کہ ایکسٹرا کلاسز ہوتی ہیں اور کورس کسی نا کسی طرح پورا کروایا جاتا ہے۔ باقی سرکاری اسکول تو ایسی غلطی کبھی بھی نہیں کرتے۔ وہ جب کام والے دن بھی نہیں پڑھاتے تو باقی کے دنوں کی تو ان کی ویسے بھی ذمے داری نہیں۔

خدا بھلا کرے جج صاحبان کا کہ جن کی مہربانی سے سی این جی بھی چھٹیوں کے بہانے والی لسٹ میں شامل ہوگئی ہے۔ اب لوگ سارا سارا دن سی این جی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں یا پھر اگر کہیں لائین لگی ملی تو آدھا دن لائین میں ہی گذار دیتے ہیں۔ دفتر اورکاروبار تو بعد کی بات ہے۔

باقی رہے حکمران اور نئے آنے والے حکمران جو حکمرانی کے خواب لیے مستقبل پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ ان کو ان چیزوں سے کیا لینا دینا۔ کسی کو اقتدار بچانے کی فکر ہے تو کسی کو اقتدار میں آنے کی فکر ہے ،سو جوڑ توڑجاری ہے۔ باقی رہی عوام تو وہ ہے کہ ماری ماری پھر رہی ہے۔ مسائل  نا اِن سے حل ہوئے۔ نا ہی آنے والوں سے کوئی  امید رکھیں۔

باقی رہی چھٹیاں تو اس کے لیے تیار رہیں۔ اس مبارک مہینے میں، پانچ دن ہفتہ ہے اور پانچ دن اتوار، ساتھ میں قائدِ اعظم کا جنم دن منائیں۔ (سوچتا ہوں اگر اگر جناح صاحب کا جنم 25 دسمبر کو نا ہوا ہوتا تو ہمارے مسیحی بھائی تو اس چھٹی سے بھی محروم رہ جاتے۔ کہ ہمارے جیسے مسلم ملک میں تو کرسمس کی چھٹی ہونے سے رہی) پھر بی بی کی شہادت کا دن  آئے گا۔ اس طرح بارہ دن کی چھٹی تو ویسے ہی بنتی  ہے۔ اور یار لوگوں نے اگر دو چار دن آگے پیچھے والے بھی ملادیے تو پندرہ دن کی چھٹی کہیں بھی نہیں گئی۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

اور خدانخواستہ رحمان ملک کو ایجنسیوں نے کوئی خظرے کی رپورٹ دیدی یا قائدِ تحریک، قوم پرست اور مولوی حضرات نے کسی احتجاج یا ہڑتال یا پہیہ جام کی کال دیدی تو بیس دن کی چھٹی کہیں بھی نہیں گئی۔ کیا یاد کریں گے کہ کس ملک میں رہتے ہیں۔ جن ممالک میں کرسمس کا تہوار منایا جاتا ہے ان بچاروں کو بھی دسمبر میں اتنی چھٹیاں نہیں ملتیں جتنی کہ ہم لوگ کھا نے والے ہیں۔

ادھر پچھلے دنوں ہمارے اخباروں میں ایک سروے چھپا کے کونسی قومیں زیادہ چھٹیاں کرتی ہیں۔ ان میں باقی سب کا ذکر تھا لیکن ایک اپنا نہیں تھا۔ سب سے کم چھٹی کرنے والے اور چھٹی والے دن بھی کام کرنے والے توہمارے پڑوسی ہی نکلے۔ جن سے ہمارا ہر چیز میں مقابلہ ہے۔ اور دیکھیں ہم کام نہ کرنے میں بھی ان سے آگے ہی ہیں۔ ویسے ان سے تو کیا  ہم تو پوری دنیا سے بھی آگے ہیں۔ اگرکوئی ہے تو کھا کے دکھائے ہمارےجتنی چھٹیاں!


 وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

jk67 Dec 07, 2012 03:30pm
چھٹیاں زیادہ ہیں تو کام کاج کا تو یونہی حرج ہونا ہی ہونا ہے......لیکن ہمارے ہاں عموماً چھٹیاں بے مصرف ہی ہوتی ہیں......لوگوں کو تفریح کا بھی شعور ہی نہیں ہے......پاکستان میں کھانا، کھانا اور صرف کھاتے ہی رہنا تفریح سمجھی جاتی ہے....شادیوں میں کھانا، کسی کی فوتگی ہوجائے تو بھی کھانا، عقیقے کا کھانا، ختنے پہ کھانا، مایوں مہندی کی تقریب میں کھانا اور اب تو بعض سیاسی و مذہبی تقریبات میں بھی کھانا پیش کیا جاتا ہے....مفت کا کھانا ملے تو مؤمن مسلمان اُسے مَن و سلویٰ سمجھ کر نوش جان کرتا ہے یا پھر کھانے کی ٹیبل یا دسترخوان کو میدانِ جہاد سمجھ کر کود پڑتا ہے....اس جہاد میں وہ خوشی غمی کے فرق کو بھی نظر انداز کر کے ہر قیمت پر فتحیاب ہونے کی کوشش کرتا ہے......! اس ضمن میں اکثریت کی توجہ گوشت پر مرکوز رہتی ہے، اس لیے کہ اکثر مسلمانوں کا ماننا ہے کہ گوشت نہ کھانے سے ایمان کمزور ہو جاتا ہے، اسی لیے تقریبات میں عموماً لوگ صرف گوشت ہی کھاتے ہیں! مسلمان اس کے علاوہ بھی بہت سی تفریحات کو پسند کرتے ہیں....مثلاً ایک بہت بڑی اکثریت کی تفریح یہ ہے کہ سارا دن کچھ نہ کیا جائے....اس طرز کے کچھ بڑی عمر لوگ بڑے شہروں میں گلی محلّوں کے نکّڑ یا فٹ پاتھوں پر تین چار کی ٹولیوں میں بیٹھے سیاست بگھارتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آتی جاتی خواتین کے جسمانی خدوخال کا نہایت تنقیدی نظروں سے جائزہ بھی لیتے رہتے ہیں! فٹ پاتھوں پر بیٹھنے والے بہت سے نوجوان برہنہ فلموں کے ٹوٹے ایک دوسرے کو موبائل پر ایم ایم ایس یا بلوٹوتھ کی سہولت کے ذریعے فراہم کرتے ہیں یا محلے کی خواتین اور لڑکیوں کے موبائل فون نمبرز ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں....یہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اگلے نکڑ والی ٹولی میں لڑکے اُن کی باجی، آپا یا پھر والدہ محترمہ کے فون نمبرز کا تبادلہ کر رہے ہیں....! اب ہمارے ہاں بہت سوں کی تفریح کا ایک ذریعہ فیس بک بھی بن چکا ہے....ان میں سے اکثریت کے پاس فیس بک پر شیئر کرنے کے لیے شاید کچھ نہیں ہوتا چنانچہ پورا ہفتہ غیرملکی اداکاراؤں کی تصاویر شیئر کرتے ہیں، لیکن دین ایمان کا بھی شاید انہی لوگوں کو فیس بک پر ٹھیکہ مل گیا ہے، چنانچہ جمعہ شریف کو جمعہ کی مبارکباد اور کبھی کبھی دجال کی نشانیاں، دنیا کی تباہی، قیامت کی آمد اور اپنے اسلاف کی وہ باتیں بھی شیئر کرتے ہیں جن پر کوئی اور تو کیا عمل کرے گا وہ خود بھی کبھی عمل نہیں کر سکتے....بعض لوگ سن ستّر کی فلموں میں ہیرو کے بنگلے کے نوکر کا کردار ادا کرنے والے ایکٹر کی شکل سے ملتی جلتی اپنی تصاویر پوسٹ کرکے ایسی خواتین کو ٹیگ کرتے ہیں جن کی آئی ڈی پکچرز انتہائی ہیجان خیز ہوتی ہیں اور پھر خوشی سے اتنے سرشار ہو جاتے ہیں کہ غسل فرض ہو جاتا ہے! قرائن بتاتے ہیں کہ ایسی اکثر فیس بک آئی ڈیز بہت سے ٹھرکی ٹائپ کے مرد حضرات آپریٹ کرتے ہیں، اگر وہ کسی ماہر و تجربہ کار سرجن سے رجوع کریں تو وہ حقیقی معنوں میں ان کو آپریٹ کرکے ویسا ہی بنا دے گا جیسا کہ وہ فیس بُک آئی ڈی پر خود کو پیش کرتے ہیں! ان کے علاوہ بھی بہت سی تفریحات ہیں جو ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت میں پسند کی جاتی ہیں....مثلاً کچھ لوگ ڈینگیں مار کر خود کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو کالج، یونیورسٹی یا دفاتر سے گھر آنے جانے والی خواتین کے نقش قدم پر چلنا پسند کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے ان کے ہمراہ ایک قدم پیچھے آتے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ خوشی یا غمی کی کسی اجتماعی تقریب میں دخل در معقولات کو اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں اور بعض مرتبہ اپنی ٹانگ کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ایسی جگہ اَڑا بیٹھتے ہیں کہ دوسروں کے لیے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے.... کچھ لوگوں کو اعلان کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے، مسجد میں چندے کے اعلان سے لے کر شادی اور فوتگی کے مواقع پر بھی یہ لوگ ذمہ دار افراد کی مرضی کے بغیر خود سے ایسے شوشے چھوڑ دیتے جنہیں پکڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے....اگر ذمہ دار حضرات غیرذمہ دار نکل جائیں تو پھر ایسے لوگوں کے اچانک انتقال کا اعلان محلے کی مسجد سے ہوجاتا ہے! ہمارے ہاں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جس کا بعض مواقع پر تجسّس دیدنی ہوتا ہے، مثلاً خواتین شادی کے موقع پر دلہن یا دولھا کی زیارت کے لیے ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور مرد حضرات کسی کی تدفین کے موقع پر مرحوم کے آخری دیدار کے لیے اس طرح اپنا اشتیاق ظاہر کرتے ہیں کہ اس مرحوم کے آخری دیدار کے بعد وہ خود بھی فوت ہوجائیں گے.... حالانکہ اس طرح کے دیدار کے لیے کسی مرحوم کو ہی دیکھنا لازم نہیں! ہمارے اردگرد کتنی ہی شخصیات، خاص طور پر معروف مذہبی شخصیات ایسی ہیں جنہیں دیکھتے ہی کانوں میں ایسی آوازیں گونجنے لگتی ہیں کہ....دیکھتے جائیے، آگے بڑھتے جائیے، مٹی نہ گرائیے، مردے کے لیے اس کا بڑا بوجھ ہوتا ہے، آگے بڑھیے، قبر پر پیر مت رکھیے....! بہت سے چھوٹے اور بعض درمیانے شہروں میں جہاں وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں یا سرمایہ داروں نے عوام النّاس کی اکثریت کو اپنی تفریح و طبع کا سامان بنایا ہوا ہے، عوام النّاس کے لیے واحد تفریح یہ باقی رہ گئی ہے کہ جب سرعام کسی کو مار مار کر جان سے ہی مارا جارہا ہو، تو وہ ایسا منظر دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑے جاتے ہیں، اوقات بھی ان کی یہی ہوتی ہے....ایسے شہروں، قصبات اور دیہاتوں میں عوام کے لیے اس طرز کی تفریحات آج کل تواتر سے فراہم کی جارہی ہیں....کبھی کسی کو سرعام نذرِ آتش کیا جاتا ہے، کبھی کُوٹ پیٹ کر کسی کی جان لی جاتی ہے اور کبھی کسی خاندان کی خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان عام لوگوں کے لیے برہنہ رقص جیسی نایاب تفریح لائیو پیش کریں.... تب تو لوگوں کے شوق کا عالم دیدنی ہوتا ہے، جو اگلی صف میں ہوتے ہیں، وہ ہجوم کے دھکّوں سے گر کر کچلے جاتے ہیں اور جو پیچھے ہوتے ہیں، وہ آگے والوں سے اس طرح درخواست کررہے ہوتے ہیں کہ جیسے انہیں کلاس روم میں بلیک بورڈ دکھا ئی نہیں دے رہا ہے، ایسے میں محوِرقص خواتین کی وحشیانہ چیخوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے جملے بھی سنائی دیتے ہیں....او یار مینوں وی ویخن دے....او خدا دا بندہ بن....مینوں نظر نئیں آریا اے....! اور ہوتا یہ ہے کچھ عرصے کے بعد پچھلی صف کے ان محرومین کی امّی جان، آپاجی اور باجیاں یہی رقص پیش کررہی ہوتی ہیں اور ان کی وحشیانہ چیخوں کے درمیان پچھلی صف میں کھڑے نیو کمرز کی زبان سے مذکورہ جملے ادا ہوتے رہتے ہیں!
yahya waqas Dec 08, 2012 08:13am
Indian PM praises about Pakstani Democracy is a slap on our socalled deomocracy