سہ فریقی مذاکرات کے موقع پر رہنماوں کا گروپ فوٹو۔ – اے پی

انقرہ: ترکی کے صدر کا کہنا ہے کہ بدھ کو ہونے والی میٹنگ کے بعد پاکستانی اور افغانی رہنماء افغانی انٹیلیجنس چیف پر حملہ کے باوجود امن عمل میں پیش رفت کے خواہاں ہیں۔

صدر عبداللہ گل نے اس حملہ کو، جسکے بارے میں افغانستان کا موقف ہے کہ اس کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی، دونوں ملکوں کے درمیان جاری مذاکرات کو ناکام بنانے کی ایک سازش قرار دیا۔

ایک ایم ملاقات کے اختتام پر، جسکا مقصد کابل اور اسلام آباد حکومتوں کے درمیان تعاون بڑھانا اور تناو کم کرنا تھا، صدر گل نے کہا کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کیساتھ ملکر کام کرنے کیلئے رضامند ہیں اور دونوں نے ایک دوسرے پر اعتماد کی تجدید بھی کی ہے۔

یاد رہے افغان انٹیلجنس چیف اسد اللہ خالد پچھلے ہفتے ایک خودکش بمبار کے حملے میں، جس نے خود کو ایک طالبان امن ایلچی ظاہر کیا تھا، شدید زخمی ہو گئے تھے۔

صدر حامد کرزئی نے اس حملے کے بعد براہ راست اسلام آباد پر تو الزام نہیں لگایا البتہ حملہ کی منصوبہ بندی کوئٹہ میں کئے جانے کا عندیہ دیا تھا۔ حملہ کی ذمہ داری بعد میں افغان طالبان نے قبول کر لی تھی۔

انقرہ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر کرزئی نے کہا کہ اس معاملہ پہ دونوں رہنماوں کے درمیان کافی سیر حاصل گفتگو ہوئی ہے البتہ انہوں نے اس کی تفصیلات میں جانے سے گریز کیا۔

افغان حکام نے بتایا تھا کہ صدر کرزئی ملاقات کے دوران اپنے پاکستانی ہم منصب کو حملہ سے متعلق شواہد مہیا کرینگے۔

اس موقع پر افغان صدر نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی دونوں ممالک دہشت گردی اور شدت پسندی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائینگے۔

دوسری جانب صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں اسد اللہ خالد پہ حملہ سے اپنے ملک کو دور رکھا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد نہیں چاھتے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں مل جل کر کام کریں اور قوم کو امن کیجانب لے جائیں۔ "خوشحال افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے" اور انہوں نے مزید کہا کہ "یہ میرے فائدے میں ہے کہ افغانستان میں امن واپس قائم ہو جائے۔"

پریس کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کی ایک جوائنٹ ورکنگ گروپ اس حملہ کی تحقیقات کریگا۔

تبصرے (0) بند ہیں