سپریم کورٹ -- فائل تصویر.
سپریم کورٹ -- فائل تصویر.

اسلام آباد: ریکوڈک گولڈ مائنز کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیے ہیں کہ اضافی دستاویزات کی مدد سے ریکوڈک معاہدے کی اصل شکل کو تبدیل کیا گیا۔

 جمعرات کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ریکوڈک گولڈ مائنز کیس کی سماعت کی۔

 سماعت کے دوران ٹیتھیان کمپنی کے وکیل خالد انور نے اپنے دلائل میں کہا کہ بی ایچ پی نے کوئی خلاف قانون کام کیا نہ ہی کسی پر دباؤ ڈال کر مشترکہ معاہدے پر دستخط کرائے۔

 انہوں نے کہا کہ مشترکہ معاہدے کی اجازت گورنر بلوچستان نے چئیرمین بی ڈی اے کو دی تھی۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اضافی دستاویزات کی مدد سے ریکوڈک معاہدے کی اصل شکل کو تبدیل کیا گیا۔

 انہوں نے سوال کیا کہ ریکوڈک معاہدے اور اضافی دستاویزات پر دستخط کرنے کی ضرورت اور بنیاد کیا تھی۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ 1993سے 2000 تک ریکوڈک معاہدے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، اتنے سال بعد معاہدے میں کیا مسائل پیدا ہوئے کہ نئی دستاویزات جاری کرنا پڑیں۔

 خالد انور نے کہا کہ حکومت کو نہیں بلکہ بی ایچ پی کو لوٹا جارہا ہے، بی ایچ پی نے لاکھوں ڈالرز خرچ کرکے معدنیات کی تلاش کی۔

تبصرے (0) بند ہیں