السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

ہمارے ڈرامے سے میری مراد ڈرامہ ہی ہے جو ٹی وی پر ہوتا ہے۔ ویسے ہوتا تو ایک زمانے میں ریڈیو پر بھی تھا اور ٹی وی ڈرامے کی داغ بیل بھی ریڈیو پر ڈرامہ کرنے والوں نے ڈالی اور ابھی تک اس ڈرامے کو  انہوں نےزندہ بھی رکھا ہوا ہے۔ چاہے اب ان کی  سانسیں بھی اُکھڑنےلگی ہیں۔  ڈرامے کی جس طرح  پہلے آبیاری کی تھی، اب بھی جب تک سانس ہے آبیاری کیے جا رہے ہیں۔

ریڈیو سے تو ڈرامہ کب کا کُوچ کرچکا کہ اب ریڈیو صرف فرفر بولنے، اِدھر اُدھر کی ہانکنے اور درمیان میں اگر چھینک آجائے یا سانس لینے کا خیال آئے تو سی ڈی سے کوئی اُودھم دھاڑ والا، آدھا پونا گانا بھی چلا دیتے ہیں۔ البتہ  ڈرامہ بے چارہ ٹی وی پر آئے دن آندھیوں اورطوفانوں سے نبرد آزماہے۔

پہلے جب سہولیات نا ہونے کے برابر تھیں تب صلاحیت، لگن اور جنون تھا جو ڈرامے کو فن کی بلندیوں پر لے گیا اور ہم اب بھی اسی ڈرامے پر ناز کرتے نہیں تھکتے۔ لوگوں میں صلاحیت تھی، لگن تھی، تخلیق کوٹ کوٹ کر بھری تھی، سب سے بڑی بات مستقل مزاجی اور سیکھنے کی خواہش بھی تھی تو سکھانے والے بھی تھے۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

ٹیلینٹ کو پہچاننے والے بھی  تھے توپتھر سے ہیرا تراشنے والے بھی۔ محدود سہولیات اور ایکیوپمینٹ کے نا ہوتے ہوئے  بھی بڑے بڑے ڈرامے پروڈیوس ہوئے۔ جن ڈراموں نے نا صرف فن اور ادب کی دنیا کو اتنے بڑے نام دیے بلکہ  معاشرے اور لوگوں کی زندگیوں پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔ اگر آج ہم ڈرامے سے وابستہ ان ہی  بڑے لوگوں کے نقشِ قدم پر چل پڑیں تو ہمیں ان روز روز  کی آندھیوں اور طوفانوں سے گھبرانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

ڈرامے کے ساتھ پہلی چھیڑخانی جنرل ضیا کے دور میں جنرل مجیب جو فوج میں نفسیاتی جنگ کے ماہر جانے جاتے تھے نے شروع کی۔ اس وقت کے بڑے لکھاریوں سے خاص طور پر ملاقاتیں کرکے انہیں ایک مخصوص نظریے کے پرچار پر آمادہ کیا گیا۔ جس کی فصل ہم آج بھی کاٹ رہے ہیں۔ دوسرا کام جنرل  مشرف نے کیا کہ ایک طرف روشن خیالی کا ڈھنڈھورا پیٹا تو پسِ پردہ بنیاد پرستی کو بھی تقویت دی۔

چینل پر چینل کھلے اور کھلتے ہی چلے گئے۔ اب قوم ہے اور چینل ہیں۔ ایک چینل کی کوکھ سے دوسرا چینل پیدا ہوجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے تیسرا، پھر چوتھا۔ اب تو پورے پورے چینلز کے خاندان بن گئے ہیں۔ ایک بریکنگ نیوز پر چل رہا ہے تو دوسرا ڈرامے دکھا رہا ہے، تیسرے نے میوزک کی ٹانگ توڑنے کا ذمہ لے لیا ہے تو چوتھا کھانے کی ترکیبیں بتا رہا ہے۔ پانچواں آپ کے دین و دنیا کے مسائل  بھی حل کر رہا ہے۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

پہلے جب صرف پی ٹی وی تھا  تو ایک وقت میں  پینتیس نہیں ایک ڈرامہ چل رہا ہوتا تھا۔ اسے لوگ توجہ سے دیکھتے بھی تھے اور اس کے اچھے برے  ہونے کا پتہ  لوگوں سے بھی لگتا تو اخبار اور میگزین اس پر تنقید یا تعریف بھی کرتے۔

اب تو ہر اخبار کا اپنا چینل ہے اور جس چینل کے پاس اخبار نہیں تو وہ بھی نکالنے پر تلا ہوا ہے کہ اب  اخبار ڈرامہ آن ایئر جانے سے پہلے ہی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کردیتے ہیں۔ ہر اخبار صرف اپنے چینل سے نشر ہونے والے ڈراموں کی تعریف لکھتا ہے اور ان ہی اداکاروں کو پروموٹ کیا جاتا ہے جو انکے  ڈراموں میں کام کرتے ہیں۔ تنقیدی جائزے یا  جائز تعریف کا زمانہ کب کا جا چکا۔

ایک دو اخبار اگر پرانی روایات پر قائم بھی ہیں تو اس میں چھپ جانا بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ پہلے فنکاروں کو جو پذیرائی ملتی تھی وہ اب ملنے سے رہی، کوئی اگر ڈرامہ نیا چل بھی رہا ہو تو ایک دوسرے کو فون اور میسیج کے ذریعے مِنت کرتے ہیں کہ یار میرا ڈرامہ آ رہا ہے۔ مہربانی فرما کر دیکھ لو۔ بے چاروں کو نا رائے ملتی ہے نا ہی دیکھ پاتے ہیں۔ کوئی اگر دو چار لائین کی خبر بھی چھاپ دے تو پھولے نہیں سماتے۔

جیسے جیسے چینل کھلتے گئے ویسے ویسے پروڈکشن ہاؤس بھی کھلنے لگے۔ چینلز کے کاروبار میں بھی بڑے بڑوں نے پیسہ لگانا شروع کردیا۔ ڈرامے کی فیلڈ نے بھی پھلنا پھولنا شروع کردیا۔ اداکار ہو، ڈائریکٹر ہو یا پروڈیوسر دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہونے لگی۔

اداکار ایک ہی وقت میں چار چار شوٹ بھگتانے لگا، کہیں پر سیٹھ بنا بیٹھا ہے تو کہیں نوجوان عاشق اور کہیں پر مارننگ شو بھی اسی کے ذمے ہے۔ رائیٹر دونوں ہاتھوں سے لکھ رہا ہے اور وہ بھی ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور انویسٹر کی عین خواہش کے مطابق۔ پھر کیا ہوا کہ بھانت بھانت کے لوگ جن کا ڈرامے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ہر طرف چھا گئے۔

چینل، پروڈکشن کمپنی اور اسپانسر کرنے والی کمپنیاں سب زیادہ سے  پیسہ بچانے کے لیے کم سے کم خرچہ کرنے لگیں۔ اگر کسی کا نام چل نکلتا ہے تو اسےکچھ ملنے بھی لگتا ہے  ورنہ باقی بے چارے بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ دو چار بڑی پروڈکشن کمپنیوں اور دو چار بڑے چینلز کے علاوہ باقی کام ادھار پر ہی چل رہا ہے۔

پی ٹی وی کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تو ٹریننگ لے کر آتے تھے۔ یہاں تو کوئی بھی آکر قسمت آزمائی کرسکتا ہے۔ اداکار سے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بننا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ کسی  پروڈکشن کمپنی میں اسسٹنٹ  ڈائریکٹر بن جائیں، پانچ دس ہزار میں بیس گھنٹے کام بھی کریں اور پھر اپنی قسمت کھلنے کی دعائیں بھی مانگتے رہیں۔ نصیب میں ہوگا تو ایک دن ڈائریکٹر بھی بن جائیں گے۔

ایسے حالات میں ڈرامے دھڑا دھڑ بن بھی رہے ہیں اور بک بھی رہے ہیں۔ کہانی ایک ہی ہے جسے گھما پھرا کر چلا رہے ہیں۔ ڈرامہ لکھنے والے کو تیرہ قسطوں کے پیسے ملتے ہیں اورجب ڈرامہ چلتا ہے تو تیئیس قسطیں بن جاتی ہیں۔ چار منٹ ڈرامہ چلتا ہے اور آٹھ منٹ اشتہار۔ دیکھنے والا بے چارہ بھول جاتا ہے کہ کیا دیکھنے کے لیے بیٹھا تھا۔

اگر  کو ئی  ڈرامہ چل پڑا تو سارے اسی  کہانی کو آگے پیچھے کرکے اور موقعہ ملا تو ان ہی اداکاروں کو پھر سے لے کر نئے نام سے ڈرامہ بنا دینگے۔ اگرآپ چینل بدلیں تو وہی اداکار تین مختلف چینل پر مختلف ڈراموں میں ایک ہی کردار ادا کرتا نظر آئے گا۔

مزاح کا تو ایسا تیا پانچہ کیا ہے کہ بجائے ہنسنے کے رونے کو جی چاہتا ہے۔ ایک کوئی مزاحیہ ڈرامہ کیا چل پڑا۔ اب اسی ٹیم کو لے کے تین چار چینل پر وہی مزاحیہ ڈرامہ  نام بدل  بدل کرچلا رہے ہیں۔ اسکرپٹ ایڈیٹر کی بھی ضرورت نہیں رہی کہ لکھوانے والوں کو پڑھنے کی عادت نہیں۔ وہ سننے کے لیے بھی مشکل سے وقت نکال پاتے ہیں اس لیے وہ جو بھی فرما دیتے ہیں اسے لکھنے والا اپنی یادداشت کے بل بوتے پر پھر سے لکھ دیتا ہے۔

ایک طرف انڈین سوپ کسی نا کسی طرح سے اثر انداز ہو ہی رہے ہیں، دوسری طرف دین ہے جو ٹاک شوز، اور کھانے پکانے کے پروگراموں سے لے کر اب ڈراموں میں بھی واضح طور پر حاوی ہونے لگا ہے۔

پھرپاک افواج نے بھی ڈرامے پروڈیوس کرنے شروع کردیے ہیں تاکہ قوم کےحب الوطنی کےجذبے کو زندہ رکھا جاسکے۔ ایسے میں شام کو تھکے ہارے لوگ جو تفریح کے لیے ڈرامہ دیکھنا چاہیں اور ان کے  ہاتھ میں ریموٹ بھی ہو تویقینا وہی دیکھیں گےجو انکے دل کو بھائے گا۔

اشتہاری کمپنیاں یہ چاہتی ہیں کہ وہ جن پروگرام پر خرچہ کریں اس کی ریٹنگ زیادہ سے زیادہ ہو۔ نتیجے میں  کیبل دیکھنے والوں کے کیبل بند کروا کے سارے مقبول انڈین سوپ بھی اب اپنے چینلز پر دکھائی دینے لگے ہیں۔ جو بھی چیز سستے میں پڑے اور زیادہ سے زیادہ پیسہ بنائے وہی سب کی منشا ٹھہری ہے۔

پھر ایسے بھانت بھانت کے چینلز کے درمیان کوئی نیا چینل کھلا اور اس نے ہمت کرکے ایک نیا تجربہ کیا کہ ترک ڈرامے کو ڈب کرکے جوپیش کیا توبے چارے دیکھنے والےجو ان سب ڈراموں سے تنگ آئے ہو ئےتھے اور انہیں بھی دیکھنے کو کچھ نیا ملا تو دیکھنے لگے۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

اگر ہمیں تھوڑی بھی سمجھ بوجھ ہوتی تو ہم تھوڑی سی محنت اور بھی کرلیتے۔ کسی کو الزام دینے کی بجائے کچھ خود کو بھی ٹھیک کرلیتے۔ ہمارے ڈرامے کی فیلڈ بھی ٹیلینٹ سے بھری ہوئی ہے۔ پہلے تو لوگ منہ اٹھا کر چل پڑتے تھے کے اداکاری کا شوق ہے یا فلم بنانی ہے۔ ہماری نئی نسل یہ سب کچھ پڑھ لکھ کر فیلڈ میں آرہی ہے اور باصلاحیت اور کریئٹو بھی ہے۔ لیکن جو پہلے سے ہی فیلڈ پر چھائے ہوئے ہیں اور کچھ کیے بغیر پیسوں کو ضرب دینے کے عادی ہیں  اور سب سے بڑی بات مارکیٹنگ اور ریٹنگ کے دلدل میں بھی دھنسے ہوئے  ہیں۔ انہوں نے آسان علاج یہی تلاش کیا کہ اب قوم کو ترک ڈرامے پسند ہیں تو اب یہی دکھائینگے۔

اصل میں یہ قوم بہت جلد اکتا جاتی ہے۔ ایک دن اسمبلی میں بھیج کر دوسرے دن باہر نکالنے کے لیے کھڑی ہوجاتی ہے۔ تو ترک ڈرامے کا بھی یہی حال ہونا ہے۔ اگر آپ کی سمجھدانی کام کرتی ہے تو سب بجائے ایک دوسرے کی نقل اتارنے کے کچھ نیا پیش کریں۔ ٹیلینٹ بہت ہے، اس کا استعمال کریں۔ ایک دوسرے سے الگ نظر آئینگے تو اچھے بھی لگیں گے۔ بجائے اندھا دھند کمانے کے، کچھ خرچہ بھی کریں۔ اپنے ادارے کے لوگوں کی ٹریننگ کا بھی بندوبست کریں نا کہ اس میں جو کچھ بھی ہے اسے نچوڑ کے باہر پھینک دیں۔

سچی بات یہ ہے کہ ڈرامے کو خطرہ باہر سے نہیں، اندر ہی سے ہے۔ جلسے جلوس سے کچھ نہیں ملے گا۔ تھوڑا بیٹھ کر اپنی طرف دیکھیں اوراپنے اردگرد بھی دیکھیں۔ ٹیلینٹ بہت ہے، لیکن کوئی ہو  جو اس کی عزت کرے، اسے پہچانے اور اسے تراشے کہ آپ نے تو چلے ہی جانا ہے۔ پیچھے وہ چھوڑ جائیں جو آپ کو بھی زندہ رکھے اور ہمارے ڈرامے کو بھی۔


 وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں