وزیرِ اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف۔ فائل تصویر اے ایف پی
وزیرِ اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف۔ فائل تصویر اے ایف پی

اسلام آباد : وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے دہشت گردی سے جامع انداز میں نمٹنے کے لئے قومی سلامتی اداروں کو انٹیلی جنس معلومات کو مزید بہتر بنانے اور سول اور فوجی اداروں کے درمیان موثر رابطہ کار استوار کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں اس مقصد کے حصول کے لئے اپنے عسکری نظریہ کو ازسر نو مرتب کرنا ہوگا۔

 انہوں نے یہ بات جمعہ کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں 14 ویں قومی سلامتی ورکشاپ کی تقریب تقسیم اسناد کے دوران خطاب میں کہی۔

 وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات بنیادی طورپر غیرریاستی عناصر سے جنم لیتے ہیں جو اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کے لئے ریاستی علامات اور اداروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔

 انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہادر سکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنیو الے اداروں اور شہریوں کی عظیم قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہاکہ پارلیمان تمام اداروں کی ماں، عوامی امنگوں اور قومی مفادات کی امین ہے۔ انہوں نے کہاکہ محض فوجی کارروائی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی، سیاسی عزم اور عوامی حمایت اس کی کامیابی کے لئے لازم ہے۔

 انہوں نے کہاکہ پوری قوم اور پارلیمان ہمارے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی جدوجہد میں اپنی مسلح افواج کی پشت پر کھڑے ہیں۔

 وزیرِ اعظم نے کہا کہ جمہوری حکومت بجا طور پر فخر کرسکتی ہے کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سیاسی تائید فراہم کی۔انہوں نے سوات ماڈل کو سیاسی حکمت عملی اور جدید جنگی طریقہ کا امتزاج قراردیتے ہوئے کہاکہ قومی سلامتی کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر کام کرے۔

سیاسی استحکام قومی سلامتی سے ناگزیر طورپر منسلک ہے۔ انہوں نے کہاکہ مایوسی کی قوتیں بدامنی، بے یقینی اور عدم استحکام کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ہمیں ایسی تمام قوتوں کے خلاف چوکس رہنا ہوگا جو طویل جدوجہد کے نتیجے میں بحال ہونے والے نظام کو پٹڑی سے اتارنے کے درپے ہیں۔

 وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ یہاں پر میڈیا کاکردار ادا آتا ہے، اسے قومی سلامتی کے وسیع تر خدوخال کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے۔

 انہوں نے کہاکہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا خطرہ تصورات اور دل ودماغ کی کشمکش بھی پیدا کرتا ہے، یہ نفسیاتی جنگ بھی ہے۔ ہمیں رجعت پسندانہ ذہنیت کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرنا ہوگا۔

وزیراعظم نے کہاکہ آج قومی سلامتی بہت پیچیدہ اور کثیر الجہتی تصور بن چکا ہے اور دنیا تبدیلیوں سے گزر رہی ہے جبکہ سکیورٹی اور خودمختاری کے روایتی تصورات بھی مسلسل تشکیل پارہے ہیں، انہوں نے کہاکہ بین الریاستی اور عالمی تعلقات میں اس جہت کے شامل ہونے کے اثرات سے نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے۔

اسٹریٹجک فریم ورک کی ضرورت

انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی مقاصد کی موثر پیروی کے لئے سٹرٹیجک فریم ورک وضع کرنے کی ضرورت ہے جو قومی قوت کے تمام عناصر کا احاطہ کرتا ہو۔ انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی کی سوچ کے کلیدی تقاضوں میں پائیدار اقتصادی وسماجی نمو، سیاسی خودمختاری واستحکام، قانون کی حکمرانی، غذائی تحفظ، مستحکم سیاسی ادارے اور تکنیکی ترقی شامل ہے۔

 وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت سیاسی مفاہمت، ہم آہنگی اور مضبوط جمہوریت کے فروغ کے لئے کوشاں ہے اور یہ قومی سلامتی خطرات سے تحفظ کے لئے ضروری ہے۔

وزیرِ اعظم کے مطابق اقتصادی سفارت کاری خارجہ پالیسی کا لازمی جزو ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے جی ایس پی پلس کا درجہ دیا جانا بین الاقوامی تجارتی تعلقات کے فروغ کے لئے مراعات کے حصول کی کوششوں کا اعتراف ہے۔

 وزیراعظم نے کہاکہ قومی سلامتی ورکشاپ کی اہمیت کو اجاگرکرتے ہوئے کہاکہ یہ فکری استعداد کار میں اضافے، ملک کو درپیش چیلنجوں اور مسائل کے بہتر ادراک اور کلیدی موضوعات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی راہ ہموار کرنے اور قومی ہم آہنگی اور قومی تعمیر کے لئے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یکجا کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں