۔ —اے ایف پی فائل فوٹو
۔ —اے ایف پی فائل فوٹو

کراچی: پچھلی دو دہائیوں میں سال دو ہزار بارہ کراچی کے لیے سب سے زیادہ خونی ثابت ہوا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق، ایک کروڑ اسی لاکھ کی آبادی پر مشتمل شہر میں گزشتہ سال تقریباً  دو ہزار افراد نسلی اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والے پُرتشدد واقعات میں ہلاک ہوئے۔

پاکستان کی معاشی شہہ رگ سمجھے جانے والے شہر کا ملکی جی ڈی پی میں بیس فیصد جبکہ ٹیکس محصولات میں ستاون فیصد حصہ ہے۔

ملک کے دوسرے حصوں سے لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ سے شہر میں وسائل پر قبضے لڑائی جاری ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں اس کی شدت بڑھ گئی ہے۔

اس سب کے دوران غریب آدمی اپنی سلامتی کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے۔

یہ عام آدمی نامعلوم گینگز کا نشانہ بنتے ہیں ، وہ گینگز جن کی سیاسی جماعتیں کھلے عام تو مذمت کرتی ہیں لیکن پس پردہ ان کے آپس کے تعلقات کسی نہ کسی حد تک برقرار رہتے ہیں۔

لیاری کے ایک مخدوش گھر میں آنکھوں میں آنسو لیے شاہدہ نے بتایا کہ ان کا بیٹا اپنے والد کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گیا تھا لیکن وہ پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ 'ہمیں اس کی تشدد زدہ لاش ایک بوری میں ملی'۔

شاہدہ کی دنیا اسی وقت اجڑگئی تھی جب اس کا سولہ سالہ اکلوتا بیٹا فیصل گزشتہ ماہ اپنے گھر سے غائب ہوا تھا۔

فیصل کے چچا محمد حسین بتاتے ہیں کہ اسے سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب کہ اس کے پیٹ اور سر پر ڈرل مشین سے کیے جانے والے سوراخ کے نشان بھی موجود تھے۔

شاہدہ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتی کہ کس نے اور کیوں ان کے بیٹے کو ہلاک کیا۔ وہ کہتی ہیں: اب ان کے جینے کا کوئی مقصد نہیں رہا۔

سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کے مطابق، گزرنے والے سال میں 2٫124 لوگ ہلاک ہوئے، اور اعداد و شمار کے حوالے سے 2012 پچھلی دو دہائیوں میں سب سے زیادہ خونی ثابت ہوا۔

انسانی حقوق کے کمیشن کا کہنا ہے کہ 2012 کے پہلے نو ماہ میں 1800 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ 2011 میں اسی دورانیے میں ایک ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

گینگز کے درمیان لڑائی، زمینوں پر قبضہ، منشیات، مذہبی شدت پسندی، سیاسی دشمنیاں، نسلی تناؤ، غربت اور ملک کے دوسرے حصوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی جیسے عناصر کی وجہ سے کراچی بارود کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے۔

پولیس کا اصرار ہے کہ محض بیس فیصد نسلی اور فرقہ وارانہ تنازعات ہی کُل ہلاکتوں کا سبب ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے آفسران کی کمی بھی اس بڑے مسئلے کا ایک حصہ ہے۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف کے مطابق، کراچی ایک ایسا شہر بنتا جا رہا ہے جہاں ناکافی سیکورٹی انتطامات کی وجہ سے پُرتشدد واقعات کو روکنا مشکل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ شہر کی ایک کروڑ اسی لاکھ آبادی کے لیے تیس ہزار سے بھی کم سیکورٹی اہلکار موجود ہیں۔

پاکستان میں اگلے چند ماہ میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں آمریت نے دہائیوں تک راج کیا ہے، وہاں تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو گا کہ کوئی جمہوری حکومت اپنی معیاد مکمل کرنے کے بعد نئی حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی۔

انتخابات کے حوالے سے کوئی تاریخ تو سامنے نہیں آئی لیکن کراچی میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں تناؤ پایا جاتا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے کرمنالوجسٹ فتح محمد بُرفت عام انتخابات کے حوالے سے خوفزدہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کے موقع پر مختلف گروپ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں گے اور یہاں طاقت کا اظہار صرف تشدد کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔

کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ لیاری اور پختون آبادی والے چند علاقوں کو چھوڑ کر شہر کے زیادہ تر حصوں پر اپنا اثر رکھتی ہے۔

حکمران جماعت پی پی پی کا گڑھ سمجھے جانے والے لیاری میں دو گرہوں کے درمیان تصادم جاری ہے۔

ایک گروہ تاریخی اعتبار سے پی پی پی کے نزدیک لیکن پارٹی سے نالاں ہے جبکہ دوسرے گروہ کو مبینہ طور پر ایم کیو ایم کی حمایت حاصل ہے۔

پہلے گروہ سے تعلق رکھنے والے ظفر بلوچ کا کہنا ہے کہ کراچی کی زمین انتہائی قیمتی ہے اور اس پر قبضے کی دوڑ ہی تمام تنازعوں کی جڑ ہے۔

گزشتہ گرمیوں میں پولیس نے ایک آپریشن کے ذریعے ظفر بلوچ کے لوگوں کو لیاری سے نکالنے کی کوشش کی تھی، جو ناکام رہی۔

بلوچ نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'بعض اوقات ہمیں منشیات مافیا کہا جاتا ہے، بعض دفعہ قبضہ مافیا تو کبھی گینگسٹر۔ وہ ہم پر مختلف الزام لگاتے ہیں کیونکہ ہم ہی ان کے لیاری پر قبضے کے منصوبے میں بڑی رکاوٹ ہیں'۔

لیاری کے باہر، شہر میں تشدد کی بڑی وجہ نسلی تناؤ ہے۔

ایم کیو ایم شہر میں پشتون اکثریت مبینہ طالبائنزیشن کے خلاف آواز بلند کرتی نظر آتی ہے۔

سندھ کابینہ میں ایم کیو ایم کے وزیر خواجہ اظہار الحسن شکایت کرتے ہیں کہ 'بڑے مجرم، خود کش بمباراور طالبان شدت پسند کراچی میں موجود ہیں اور ان کے یہاں کے مقامی مجرموں سے تعلقات بھی ہیں'۔

ان کا کہنا ہے کہ 'یہ لوگ مافیا بن چکے ہیں، موبائل فون چھیننے سے لے کر بنکوں میں ڈکیتیوں تک، سب آپس میں ملے ہوئے ہیں'۔

پشتون اکثریتی عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم پر اقتدار کی سیاست کا الزام لگاتی ہے۔

اے این پی سندھ کے جنرل سیکریٹری جنرل بشیر جان کے مطابق 'ایم کیو ایم پورے شہر پر قبضہ اور کنٹرول چاہتی ہے'۔

بشیر جان کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران ان پر تین مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں