ریل کی سیٹی

ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔

اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔


فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

دور کہیں دون کی وادی ہے۔ چھتنارے چنار سر جوڑے رہتے ہیں مگر پھر بھی ان بھوج پتر وں کے قدموں میں آباد پودے کہیں سے ایک آدھ کرن چرا کر نمو کی سیڑھی چڑھ ہی جاتے ہیں۔

اس وادی میں بہت سی جاگیریں تھیں جن میں سے ایک کو مقامی لوگوں نے چاند باغ کا نام دے رکھا تھا۔ دہرہ دون کی مضافات میں واقع یہ جاگیر کرنل سکنر کی ملکیت تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان میں چیفس کالج کا بہت چرچا تھا۔

ایسے میں کلکتے کے ایک وکیل ستیش رنجن داس نے ایک اور سکول کھولنے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے سب ریاستوں سے مالی معاونت کی درخواست کی مگر پیسے اکٹھے ہونے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ستیش صاحب کی بیوہ اور دوستوں کی کوشش سے 1935 میں خوابیدہ ندیوں اور ہر سانس کے ساتھ اندر آتی جاتی ہریالی میں آخر کار ڈون سکول کھل ہی گیا۔

سیاست کے راجیو گاندھی سے فوج کے کلدیپ سنگھ برار تک اور سوات کے میاں گل اورنگزیب سے فضائیہ کے اصغر خان تک اسکول نے زندگی کے ہر شعبے میں سکہ بند افراد پیدا کئے ہیں۔ اس فہرست میں ایک نام جنرل غلام جیلانی خان کا بھی ہے جو پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں۔ جیسے ہر گزرا ہو دن مانس لوک کو اپنے ماضی کے قریب کرتا ہے اور وہ لاکھ کوشش کے باوصف مستقبل میں ماضی کا پیوند لگانے سے باز نہیں آتا۔ سو غلام جیلانی نے بھی ڈون جیسا ایک سکول پاکستان میں بنانے کی ٹھانی۔

مریدکے شائد باقی منڈیوں کی طرح آسودہ خاک ہی رہتا مگر پھر یہ جگہ آ باد ہوئی اور اب چاند باغ پبلک سکول اس قصباتی منڈی کی پہچان ہے۔ مریدکے کے چھوٹے چھوٹے ریستوران اور رینٹ اے کار کی دوکانیں ختم ہونے سے پہلے ہی شاہدرہ کے آثار نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سڑک اور فیکٹری کے دور سے پہلے یہاں ہجرت کرنے والے پرندے رکا کرتے تھے۔ اب چمڑا رنگنے والی فیکٹریاں ہیں اور ان کا آلودہ پانی۔ جو تھوڑی بہت جگہ بچی تھی اس میں ہاؤسنگ سکیمیں کھل گئی ہیں۔

ٹرین جب شاہدرہ پہنچی تو میں بھی اپنے اندر بہتے ماضی کو ڈھونڈھنے ساتھ چلا آیا۔ ریل کی پٹڑی کے ساتھ جڑی پہلی کہانی ہی تقسیم کی کہانی ہے۔

بوٹا سنگھ، جالندھر کا ایک کسان تھا۔ برما کے محاذ کا یہ سپاہی انگریز کی جنگ لڑ کر وطن واپس لوٹا تو ہمیشہ سے اس کا راستہ تکتی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکی تھیں۔ پوہ کا مہینہ آتا تو سونے دالان میں جاڑوں کی دھوپ کے بدلتے رنگ بوٹا کو بہت اکیلا کر دیتے۔ اچھے کسان اور آزمودہ فوجی کی طرح اس نے سینتالیس کے ساون میں گھر بسانے کا ارادہ کر لیا تھا۔

پنشن سے ملنے والی رقم میں کچھ جوڑ جمع باقی تھا کہ تقسیم ہو گئی اور ایک دن قافلے سے چھوٹی زینب بلوائیوں سے بھاگتی بھاگتی بوٹا سنگھ کے کھیت میں آ گئی۔ بوٹے نے بلوائیوں کو دھمکانے کی کوشش کی مگر ہوس کی ماری آنکھیں زینب کے آنسوؤں سے زیادہ اس سودے میں ملنے والے دام پہ تھیں۔ بوٹے نے دم کے دم میں فیصلہ کیا اور زینب کے عوض بلوائیوں کو اپنی تمام جمع شدہ رقم دے دی۔

تقسیم ٹل گئی تو گاؤں کی روائت زندہ ہو گئی۔ بڑے بوڑھوں کو مذہب اور سماج یاد آ گیا۔ انہوں نے بوٹا سنگھ کو پنچائت میں طلب کیا اور بتایا کہ وہ زینب کو اپنے گھر نہیں رکھ سکتا۔ اس کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ زینب کو واپس کر دے یا پھر اس سے شادی کر لے۔ پوہ لگی نہیں تھی مگر بوٹا سنگھ کو آنگن پہلے جیسا ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے سرحد پار جانے والے قافلے کا بندوبست کیا اور ایک مناسب لڑکے کو بھی تلاش کیا جو زینب کے ساتھ لاہور جا کر یا اس سے پہلے شادی کر لیتا۔ ایسے میں زینب کو بوٹا سنگھ کی دی گئی قربانی یاد آ گئی ۔ چلنے کا وقت آیا تو اس نے بوٹے سے پوچھا کہ وہ ساری زندگی صرف دو روٹیوں کی طلب گار رہے گی کیا وہ اسے یہ دو روٹیاں دے سکتا ہے؟ خالی گاڑی واپس چلی گئی اور سورج چڑھتے ہی بوٹا اور زینب نے شادی کر لی۔ اگلے سال ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام تنویر رکھا گیا۔

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

جب خون بہہ بہہ کر جم گیا تو سرکار بھی ہوش میں آئی۔ دونوں ملکوں نے اس وقت نیا قانون بنایا کہ دونوں اطراف کی خواتین واپس ہوں گی۔ بوٹا شہر میں تھا جب اس کے ایک بھتیجے نے جائداد کے لالچ میں پولیس والوں کو زینب کی مخبری کردی۔ وہ واپس پہنچا تو چارپائی کے نیچے زینب کی آگے پیچھے ہوئی جوتیاں پڑی تھیں اور کھلے صحن میں تنویر کور رو رہی تھی، ابھی پوہ لگنے میں کچھ دن تھے۔

گاؤں کے لوگوں سے پوچھ تاچھ کے بعد بوٹا سنگھ سیدھا دلی آ گیا۔ شاہدرہ سے کیس کٹوائے، جامع مسجد میں اسلام قبول کیا اور اپنا نیا نام جمیل احمد رکھا۔ اگلے چھ ماہ تک بوٹا سنگھ کیمپ کا چکر لگاتا اور جالیوں کے آر پار میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر باتیں کرتے۔ اس دوران بوٹا سنگھ پاکستانی ہائی کمشنر سے بھی ملا مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ سرکار نے سختی سے قانون کی پابندی کا ٹھان رکھا تھا۔

پھر ایک صبح زینب کے گھر والوں کے ملنے کی خبر آئی۔ سارا دن دونوں میاں بیوی جالی کے جنگلے کے ساتھ چپ چاپ بیٹھے رہے۔ بوٹا جب بھی اوپر دیکھتا اسے زینب کی بڑی بڑی آنکھیں خلاؤں میں گھورتی نطر آتیں اور جیسی کونجوں کی ایک قطار آسمان سے نکلتی ویسے ہی آنسوؤں کی ایک دھار اس کی آنکھوں سے نکل کر گود میں قطرہ قطرہ گرتی جاتی۔ گاؤں میں گزرا وقت کسی اور جنم کی کہانی محسوس ہوتا۔ پاکستان جاتے وقت زینب بچی کے علاوہ بہت سے خاموش وعدے بھی بوٹا سنگھ کے حوالے کرگئی۔

بوٹا سنگھ نے مسلمان ہونے کے ناطے پاکستان کی شہریت اختیار کرنے کی درخواست دی جو رد ہو گئی۔ اس نے ہندوستانی ہونے کے ناطے پاکستان کا ویزا مانگا جو نہیں ملا۔ مہر لگانے والے بابو نے اسے بہت سمجھایا کہ دونوں دیس نئے بن گئے ہیں وہ بھی نیا جیون شروع کرلے مگر بوٹا انہیں کیسے سمجھاتا کہ پنجاب کے دانے پانی میں کچھ ایسا ہے جو آ گے بڑھنے نہیں دیتا۔ وہ تو برما کے محاذ پہ بھی اپنا جالندھر دل میں بھر کر لے گیا تھا، یہ تو پھر بھی ایک چھوٹی سی لکیر تھی۔ بوٹے کو کون بتاتا کہ لکیر تھی تو چھوٹی مگر اتنی گہری گڑی تھی کہ نسل در نسل خون جوانیاں دینے کے باوجود اب تک پرانے کنوئیں ایسی اندھی تھی۔ 

جاری ہے... 


  مصنف وفاقی ملازم ہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

Koi-Kon Jan 07, 2013 03:38pm
Reblogged this on KOI KON and commented: Shahdara
Koi-Kon Jan 07, 2013 04:05pm
..
imtiaz rasheed Jan 07, 2013 07:45pm
Very nice article ...
Aasma Qamer Jan 08, 2013 07:33am
I just love your writings, how can one get all your blogs of this series ریل کی سیٹی
Koi-Kon Jan 08, 2013 01:02pm
یہ تمام تحریریں ڈان کے اسی صفحے پہ میرے نام پہ کلک کرنے سے بھی پڑھی جا سکتی ہیں بصورت دیگر آپ میرے بلاگ پہ بھی ان سب کہانیوں کو پڑھ سکتی ہیں www.muhammadhassanmiraj.wordpress.com
گلزیب انجم May 25, 2013 07:12am
ماشاُ اللہ بہت خوب صورت انداز بیان ہے۔