چوہدری شجاعت حسین میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔—فائل فوٹو
چوہدری شجاعت حسین میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔—فائل فوٹو

اسلام آباد: اگر مسلم لیگ قاف کے ایک رہنما اور وفاقی وزیر کا اعتبار کیا جائے تو ان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت بستر مرگ پر ہے۔

ان کا خیال ہے کہ حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے فوری سیاسی طلاق ہی 2002 سے 2007 تک ملک میں فوجی آمر پرویز مشرف کی زیر نگرانی حکومت کرنے والی ق لیگ کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔

ق لیگ کے اس رہنما نے بتایا کہ گزشتہ ہفتہ اسلام آباد میں پارٹی کے ارکان اسمبلی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں تقریباً سب ہی شرکاء نے صدر زرداری کے ساتھ انتخابی اتحاد کی سخت مخالفت کی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس اجلاس میں انہوں نے پہلی مرتبہ پی پی پی حکومت کے پُرجوش حامی چوہدری برادران کے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھے۔

اجلاس میں شرکت کرنے والے ایک اور ذرائع نے اس کی تصدیق کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین اور ان کے کزن چوہدری پرویز الہٰی نے اجلاس میں اصولی طور پر  ق لیگ کے اپنے انتخابی نشان 'سائیکل' کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے پر اتفاق تو کیا لیکن وہ پی پی پی سے اپنی راہیں جدا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔

'کیونکہ ان کا خیال ہے کہ پی پی پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے دونوں پارٹیوں کو فائدہ ہو گا'۔

لیکن دوسری طرف، حکمران جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کے مخالف ق لیگ کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ پی پی پی کا 'جیالا' کبھی بھی انہیں ووٹ نہیں دے گا اور نہ ہی مسلم لیگ نون کا پرانا ووٹر پی پی پی کے تیر پر نشان ثبت کرے گا۔

'اس لیے پارٹی کا بہترین مفاد اس میں ہے کہ صدر زرداری کو خدا حافظ کہہ دیا جائے'۔

ق لیگ کے اس رکن قومی اسمبلی کا مزید کہنا ہے کہ ' ہم میں سے زیادہ تر کے پاس اپنے محفوظ انتخابی حلقے ہیں اور ان حلقوں میں پارٹی کا نام زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لیے چوہدریوں کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ ق لیگ کی علیحدہ شناخت برقرار رکھتے ہوئے آزاد پارٹی کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں'۔

انہوں نے حامد یار ہراج کی مثال دی جنہوں نے 2002 میں این اے 157 خانیوال – ٹو سے الیکشن جیتنے کے بعد ق لیگ میں شمولیت اخیتار کر لی تھی۔

دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں بھی ہراج اپنے مضبوط سیاسی خاندان وجہ سے دوبارہ اپنی نشست پر جیت گئے تھے۔

اسی طرح، ریاض فتیانہ بھی آزاد امید وار کی حیثیت سے 2002 میں جیتنے کے بعد ق لیگ میں شامل ہوئے تھے۔

دو ہزار آٹھ میں انہوں نے سائیکل کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیا اور بغیر کسی مشکل کے ٹوبہ ٹیک سنگ میں این اے - 94 سے کامیاب رہے، حالاں کہ اس مرتبہ پارٹی کو مجموعی طور پر شکست کا سامنا رہا تھا۔

سردار طالب حسن نکئی کا خاندان قصور میں بہت زیادہ اثر رسوخ رکھتا ہے جس کہ وجہ سے انہیں ضلع قصور کے حلقہ این اے 142 سے پچھلے دونوں عام انتخابات جیتنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

سردار بہادر احمد سحر نے اپنے والد کی پی پی پی کے ساتھ وابستگی کے باوجود 2002 سے قبل ق لیگ میں شمولیت اختیار کی اور لیہ – ٹو این اے 181 سے دو مرتبہ کامیابی حاصل کی۔

ق لیگ کے وفاقی وزیر نے ڈان کو مزید بتایا کہ 'ہم خیال سیاسی جماعتوں سے برابری کی بنیاد پر انتخابی اتحاد ممکن ہے'۔

یاد رہے کہ ق لیگ حکمران جماعت پی پی پی کے بعد دوسری جماعت تھی جس نے 2008 میں ملک بھر سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔

آج بھی اس کے پچاس ارکان قومی، پچاس پنجاب، انیس بلوچستان، گیارہ سندھ جبکہ چھ خیبر پختونخواہ اسمبلی میں موجود ہیں۔

لیکن 2008 میں اتنی نشستیں حاصل کرنے کے باوجود ابتدا میں پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان وفاق اور پنجاب میں اتحاد  کی وجہ سے ق لیگ پس منظر میں چلی گئی تھی۔

تاہم ن لیگ اور پی پی پی کا اتحاد عارضی ثابت ہوا اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے کھلی جنگ میں مصروف ہو گئیں۔

اس صورتحال کی وجہ سے ق لیگ ایک مرتبہ پھر ابھری اور مئی 2011 میں صدر زرداری اور چوہدری شجاعت حسین نے مرکز میں ہاتھ ملانے پر اتفاق کر لیا۔

حالانکہ اس ڈیل سے چوہدری پرویز الہٰی کی خواہش تو پوری ہوئی اور انہیں نائب وزیر اعظم کا عہدہ سونپ دیا گیا تاہم ق لیگ کے وزراء اورارکان اسملبی پی پی پی کے وزیر اعظم کی جانب سے 'سوتیلی ماں' جیسا سلوک روا رکھنے کی شکایت کرتے ہیں۔

پی پی پی سے اتحاد کے جلد از جلد خاتمے کے خواہش مند جنوبی پنجاب سے ق لیگ کے رکن اسمبلی شکایت کرتے ہیں کہ ان کی پارٹی نے حکمران اتحاد میں شامل ہونے کے بعد عدلیہ سے ٹکراؤ اور ایم کیو ایم کی دھمکیوں کے سامنے حکومت کا ساتھ دیا لیکن پی پی پی نے انہیں ہمیشہ نظر انداز ہی کیا ہے۔

' ہمیں ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں اہمیت نہیں دی جاتی اور اب جبکہ پی پی پی کی حکومت نے اپنے کارکنوں میں بڑی تعداد میں نوکریاں بانٹنی شروع کر دی ہیں تو ہمارے تجویز کردہ ناموں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ صورتحال انہیں ہرگز قبول نہیں ہے'۔

چوہدری برادران کے ایک قریبی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ  جہاں تک پی پی پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کا تعلق ہے، چوہدری شجاعت الیکشن شیڈول کے اعلان ہونے تک تمام دروازے کھلے رکھنے کے حق میں ہیں۔

'تاہم چوہدری پرویز الٰہی پی پی پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے حق میں ہیں اور وہ اس کا جلد از جلد اعلان بھی چاہتے ہیں'۔

ق لیگ کے ایک رہنما نے بتایا کہ چوہدری پرویز الٰہی کا خیال ہے کہ ن لیگ کے ساتھ جانے کا کوئی موقع نہیں ہے اور ایسی صورت میں اقتدار میں واپسی پی پی پی کے ساتھ اتحاد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ق لیگ کے ہی ایک اور رہنما نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'سیاسی جماعت کی حیثیت سے انہوں نے اپنے تمام دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں اور اسی لیے سیاسی اکھاڑے میں سب سے بات چیت کی جا رہی ہے'۔

' انتخابی اتحاد کے حوالے سے ہمارا حتمی فیصلہ الیکشن شیڈول کے جاری ہونے کے بعد ہی آئے گا'۔

چونکہ ق لیگ اس الیکشن میں سابق صدر پرویز مشرف سےبھرپور تعلق کا بوجھ اٹھائے حصہ لے گی، اس لیے چوہدری پرویز الہٰی کو خدشہ ہے کہ ان کی جماعت اپنے بل بوتے پر انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتی، لٰہذا اسے پی پی پی کے ساتھ اتحاد بنانا ہو گا۔

سیاست ممکنات کا دوسرا نام ہے۔ کون جانتا ہے کہ اگلے انتخابات کب ہوتے ہیں اور کون ان میں کامیاب رہتا ہے، بالخصوص اس وقت جب طاہر القادری اپنے 'ملین مارچ' کے ذریعے سیاسی کڑاہی میں ابال لانے والے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم نے ڈاکٹر قادری سے لاہور میں ان کے دفتر میں ملاقاتوں کے دوران ان کے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کی حمایت کی ہے۔

دوسری جانب، ق لیگ نے گزشتہ ہفتہ الیکشن کمشین کے خلاف اپنے حریف ن لیگ کے لیے  مبینہ طور پر'نرم گوشہ' رکھنے پر ایک قرارداد بھی منظور کر ڈالی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں