ادریس
ادریس

جہاز اس دن تقریبا بارہ گھنٹے لیٹ تھا۔ ائیرپورٹ پہ مسافر جمہوریت اور مارشل لاء، ترکی ڈراموں کے اثرات اور طاہر القادری کے بارے میں بات کر کر کے اوبھ چکے تھے۔

فضا نرگسیت سے اس قدر بوجھل تھی کہ سانس لینے کو رن وے تک آنا پڑتا تھا۔ کھمبے کی جلتی بجھتی بتیاں خدا معلوم کس کو کس زبان میں کیا بتا رہی تھیں، اتنا ضرور ہے کہ اس انتشار میں بھی کچھ پیغام تھا جو مسلسل نشر ہو رہا تھا۔

اچانک شہر کی طرف ایک روشنی کا ہالہ چمک کر بجھ گیا اور تقریبا دس سیکنڈ بعد دھماکے کی آواز آئی۔

کچھ ہی دیر میں ٹی وی پہ رن وے کی بتیوں کی صورت ادھوری خبریں آنا شروع ہو گئیں۔

اس دفعہ دھماکے کی جگہ کا تعین ہی نہیں ہو پایا تھا۔ نہ تو کہیں گڑھا ملا نہ ہی اوندھی پڑی ہوئی ادھ جلی گاڑیاں۔ نہ ہڈیاں تھیں اور نہ بال بیرنگ کھائے جسم۔

نہ کہیں جوتوں کے تلووں سے چپکتا انسانی جسم کا کوئی قیمتی لوتھڑا تھا اور نہ ٹکڑے ہوا پریشر ککر۔

سارے میں بارود کی بو بھی نہیں تھی۔ حیرت کی بات تھی کہ دھواں بھی نہیں اٹھ رہا تھا اور دیواروں پہ بھی آنچ لگی سیاہی بکھری نہیں ملی۔

نہ دوکانوں کے بورڈ کچھ جلے کچھ باقی تھے اور نہ فضا میں گریہ کی آوازیں ۔ ایمبولینسیں تو تھیں مگر جیسے مدھم سے چل رہی تھیں۔

ٹی وی چینلز کی کیمرہ والی ویگنیں تو آئی بھی نہیں۔

رضا کار اطمینان سے لاشوں کو اٹھا کر ایک طرف کئے جا رہے تھے۔ پولیس کے چند سپاہی ایک ہاتھ میں سگریٹ اور ایک میں جائے واردات کی پیلی پٹی لے کر گردا گرد گھوم رہے تھے۔یہ سنوکر کلب تھا۔ جس وقت پہلا دھماکہ ہوا تو بھگدڑ مچ گئی۔

ہزارہ لوگوں کا خیال تھا کہ علمدار روڈ کی حفاظتی لکیر پار کرنے سے پہلے پہلے انہیں کوئی نہیں تنگ کرے گا۔

وہ اپنے عقیدہ اور خدوخال کے ساتھ یہاں رہتے رہیں اس سے کسی کے ایمان میں خلل نہیں پڑے گا۔ مگر یہ لکشمن ریکھا صرف سیتا کے ذہن میں تھی۔

پہلے دھماکے کے بعد سب سنوکر کلب سے نکلے تو نیچے سے آتی ایمبولینسیں نظر آنا شروع ہو گئیں۔

لوگ زندگی دینے والوں کی طرف لپکے تو اچانک ایک ایمبولینس پھٹ گئی۔ بم گاڑی میں چھپا تھا اور یہ ہزارہ کے لئے پہلا دھوکہ نہیں تھا۔

تمام منظر کسی خاموش فلم ایسا تھا۔ چھاتی پہ کیل گڑے ہیں، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں مگر چہرے پہ کرب کا تاثر نہیں۔

خون ٹپک تو رہا تھا مگر زمین پہ نہیں گر رہا تھا۔ ادریس کی ٹانگ پہ گولی لگی تو مجھے سانس آیا کہ کم سے کم یہ تو روئے گا۔

ادریس نے ہمیں اکتوبر کے سنہرے دنوں میں ہزارہ کے لاکھوں رنگ دکھائے تھے۔

وہ اپنی موٹر سایئکل پہ تنگ مگر پختہ گلیوں کے اندر لے جاتا جہاں خوشبو جیسے لوگ رہتے تھے۔

شام ڈھلے جب میچد ٹی وی کے تہہ خانے میں چائے کا دور چلتا تو ادریس بھی اپنی کہانی سناتا، اس کے بابا ایک متمول وکیل تھے پھر کوئٹہ بدل گیا۔

اب یہ لوگ سید آباد میں اور ادریس کے بابا ہزارہ قبرستان میں رہتے تھے۔

مگر ادریس بھی کچھ نہیں بولا۔ نہ کوئی شکوہ نہ شکائت، نہ جلاؤ گھیراؤ کی دھمکی نہ ہی ہاتھ اٹھا کر کربلائی روائت میں خدایا خیر کہا۔

بس چپ چاپ ایک ہاتھ سے کندھے کا لہو روکتے ہوئے ایک ٹانگ پہ لنگڑاتے ہوئے خود ہی جا کر مرہم پٹی والوں کے پاس بیٹھ گیا۔

لاشوں کے ڈھیر میں عرفان علی خودی کے گھنگھریالے بال بھی نطر آئے۔ تھوڑا قریب ہوا تو مٹی کے اس پرسکون ڈھیر کی شاہراہ دستور پہ ہزارہ کے حق میں مظاہرہ کرنے والے پرجوش نوجوان سے دور دور کی کوئی شباہت نہیں تھی۔

مجھے خاموش عرفان علی بالکل اچھا نہیں لگا سو میں نے چادر اوپر کر دی۔ یوں بھی عینک کے بغیر اس کا چہرہ پہچانا ہی نہیں جاتا تھا۔

دھماکے میں مرنے والوں کے چہرے عمومی طور پہ ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ یہ میرا وجدان نہیں تھا بلکہ ہزارہ قبرستان کی ایک تازہ قبر پہ نیاز کھلاتے ہوئے ایک نو سال کے بچے نے بتایا تھا۔

میں نے پوچھا کہ پھر تمہیں والد کی لاش کیسے ملی، کہنے لگا گھڑی، جوتی اور پاؤں کے دو انگوٹھوں سے۔

سنوکر کلب میں کثرت تئیس سے تیس سال کے نوجوان لڑکوں کی تھی۔ سنوکر کی ہر شاٹ کے ساتھ خواب کا نیا سلسلہ جڑتا تھا۔

آنے کی جلدی اور جانے کا خیال ، گھروں میں منتظر مائیں اور آسٹریلیا میں روٹھتی مانتی ہوئی منگیتریں۔ اب بے جان جسم تمام فکروں سے آزاد پڑے تھے۔

یادداشت کے کھونٹی خانے سے ایک احساس نے دستک دی ، ایسا منظر کہیں پہلے بھی دیکھ رکھا تھا ، کچھ انیس سو پینتالیس کے لگ بھگ کہیں آشوٹز کے آس پاس مگر دھماکے کے باعث ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا تھا۔

اتنی تعداد میں لاشیں، اس قدر وافر لہو اور لوگوں کا اعصاب شکن سکون۔

زخمیوں کی مرہم پٹی سے میتوں کی تکفین تک مجھے ایک آنسو، ایک چیخ اور ایک لفظ کی تلاش ہی رہی۔

علمدار روڈ سے باہر نکلتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے رونے کی آوازیں، بارود کی بو اور سسکتے ہوئے منظر کیوں نہیں مل سکے۔

جناح روڈ پہ ایک جگہ جہاد کا اعلان کرتا ہوا ایک بینر نظر آ گیا جس میں قربانی کی کھالوں کا تقاضا تھا۔

اوپر اقبال کا شعر لکھا تھا خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

گھر لوٹتے ہوئے فون کانوں کو لگانے کی کوشش کی تو کانوں کا گڑھا محسوس ہوا، سراسیمگی کے عالم میں ہاتھ کی انگلی ہونٹوں سے کچھ اوپر آ کر ٹھہر گئی، ناک کی جگہ اب ایک سپاٹ تختہ تھا، پیچھے دیکھنے والے شیشے میں دیکھا تو پلکوں والی آنکھوں کی جگہ بدنما کھائیاں تھیں۔

میں گھر پہنچا تو گاڑی سے اترتے اترتے سب کچھ دوبارہ اگ آیا تھا۔

صبح آنکھ کھلنے سے پہلے اور جاگنے کے بعد میں نے ڈرتے ڈرتے دوبارہ آنکھ، کان اور ناک چھو کر اپنی جگہ محسوس کئے تو سانس میں سانس آئی۔

گاڑی جونہی جناح روڈ سے علمدار روڈ کی طرف جانے کو مڑی، میں نے شیشے میں دیکھا۔ ناک کان اور آنکھیں دوبارہ گڑھے بن چکے تھے۔

گاڑی کے ریڈیو پہ خبروں کا گھنٹہ بجا تو پتہ چلا کہ لشکر کے سپاہیوں نے ذمہ داری کا ثبوت دے دیا تھا۔

دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد سو ہو چکی تھی۔

یک صد ہزارہ کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

تصاویر بشکریہ مصنف


ہزارہ" برادری پر ڈان.کام کا خصوصی فیچر "کون ہزارہ!" پڑھنے کے لئے فوٹو پر کلک کریں"iamhazara-text670


ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Adnan Jan 11, 2013 09:31am
Thank you Dawn news
Koi-Kon Jan 12, 2013 02:55am
Reblogged this on KOI KON.
یک صد ہزارہ « Shafique Ahmed Madani The Parachinar Observer Jan 12, 2013 09:46am
[...] See on urdu.dawn.com [...]