امریکی صدر بارک اوباما اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران۔—اے ایف پی
امریکی صدر بارک اوباما اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران۔—اے ایف پی

واشنگٹن: امریکہ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان کسی قسم کے معاہدے پر نہ پہنچے تو خطے میں امن اور استحکام کا سوچنا بھی مشکل ہو گا۔

جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں افغان صدر حامد کرزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں امریکی صدر بارک  اوباما نے تسلیم کیا کہ پاکستانی حکومت نے معاملے پر بڑے شعور کا مظاہرہ کیا ہے۔

دونوں صدور کی جانب سے ایک گھنٹہ تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد اس پریس کانفرنس سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان افغانستان میں امریکی فوج کے مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ اختلافات موجود ہیں۔

ایک طرف جہاں اوباما یہ واضح کرتے نظر آئے کہ 2014 کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی انہیں ملنے والی قانونی استثنٰی سے مشروط ہو گی تو وہیں کرزئی نے اصرار کیا کہ استثنٰی دینے سے قبل دوسرے اہم معاملات کو حل کیا جانا ضروری ہے۔

تاہم دونوں رہنما دوحہ میں طالبان کے دفتر قائم کرنے پر رضامند نظر آئے اور انہوں نے قطر کی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں ہر ممکن سہولت فراہم کرے۔

صدر اوباما کا کہنا تھا کہ پاکستان اور خطے کے دوسری ریاستوں کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور یہ کہ ' مضبوط اور محفوظ افغانستان پورے خطے کے حق میں ہے'۔

اس موقع پر اوباما نے پاکستان کی جانب سے زیر حراست طالبان رہنماؤں کو افغان حکومت سے براہ راست امن بات چیت کے لیے رہا کرنے کے اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں خوش آئین قرار دیا۔

صدر کرزئی نے دوحہ میں طالبان دفتر کے کام کرنے کا طریقہ کار بتاتے ہوئے کہا کہ ' وہاں موجود شدت پسندوں کے نمائندے براہ راست افغان امن کونسل کے بڑوں سے بات چیت کریں گے'۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے ہونے والی اس بات چیت میں پاکستان اور دوسرے ملکوں کے مندوبین بھی حصہ لے سکیں گے۔

اس سے پہلے، کرزئی کی امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن سے ملاقات کے بعد ، وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں پاکستان کے افغان مفاہمتی عمل میں بھرپور کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ اسلام آباد نے طالبان رہنماؤں پر سفری پابندیوں میں نرمی کر دی ہے۔

افغانستان میں دو ہزار چودہ کے بعد امریکی فوجیوں کی موجودگی پر پوچھے گئے ایک سوال پر اوباما نے بتایا کہ کئی ملکوں میں امریکی فوج موجود ہے لیکن کہیں بھی ان کی تعیناتی استثنٰی کے بغیر نہیں ہے۔

'صدر کرزئی یہ بات سمجھتے ہیں۔ امریکی فوج کی موجودگی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہاں کام کرنے والے امریکی مردوں اور خواتین کو مقامی قوانین سے استثنٰی حاصل نہ ہو'۔

اس پر کرزئی نے کہا کہ: ہم سمجھتے ہیں کہ استثنٰی کا معاملہ امریکیوں کے لیے اُتنا ہی اہم ہے جتنا ہمارے لیے ملکی خود مختاری۔

ان کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ افغان دیہی علاقوں میں امریکی فوج کے آٓپریشنز اور فضائی حملوں کے حوالے سے کابل اور واشنگٹن میں اختلافات موجود ہیں۔

کرزئی کا مزید کہنا تھا کہ 'وہ ان مسائل کے حل کے بعد ہی افغان عوام کے پاس جا کر امریکی  فوجیوں کے لیے یہ کہتے ہوئے استثنٰی مانگیں گے کہ اس سے ان کی خود مختاری پر آنچ نہیں آئے گی'۔

تاہم صدر اوباما نے اس موقع پر اپنے ہم منصب کو یاد دہانی کرائی کہ 2014 کے بعد افغان دیہات میں امن برقرار رکھنے کی ذمہ داری امریکہ پر عائد نہیں ہو گی۔

'اس کی ذمہ داری افغان سیکورٹی فورسز پر ہو گی لہذا یہ اہم نقطہ نہیں ہے'۔

صدر کرزئی سے جب پوچھا گیا کہ وہ 2014 کے بعد اپنے ملک میں کتنے امریکی فوجی دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ 'تعداد سے کوئی فرق نہیں پڑتا'۔

'اس کا تعلق دونوں ملکوں کے درمیان وسیع پیمانے پر تعلقات ہیں۔ یہ امریکہ نے طے کرنا ہے کہ وہ یہاں کتنے فوجی رکھنا چاہتا ہے'۔

اوباما کا کہنا تھا کہ 2014 کے بعد امریکہ کی توجہ افغان فورسز کی تربیت اور ان کی معاونت پر ہو گی۔

' ہم یہ بھی یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ القاعدہ اور اس سے جڑے دوسرے گروپ امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف افغان سر زمین کو استعمال نہ کر سکیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم افغانستان میں بہت زیادہ متحرک کردار ادا کیے بغیر بھی اپنا یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں'۔

اوباما کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ ، افغانستان اور پاکستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ شدت پسندی کے خطرے کو کم کیا جائے۔

' اور اس کے لیے فوجی کارروائیوں سے بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں