السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.


is blog ko Abro Sahab ki awaaz mein sunne ke liye play ka button click karen | اس بلاگ کو ابڑو صاحب کی آواز میں سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/76120289" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


بٹوارہ صرف زمین کا نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے دلوں میں، دماغوں میں، رویوں میں اور جذبوں میں بھی بٹوارہ کیا گیاتھا تا کہ زمین کے بٹوارے میں مشکل نا پیش آئے اور آسانی سے سب کچھ ہو بھی گیا تھا۔ کسی کے پیروں تلے زمین کھینچ لی گئی تو کسی کے سر سےآسمان! اور وہ کوئی ایک دو نہیں لاکھوں کی تعداد میں تھے، جو نا اِدھر کے رہے نا اُدھر کے۔ بس اگر رہے تو صرف وہی جنہیں حکمرانی کرنی تھی۔ جو ایک پوری مملکت کے حصے بخرے کرنے میں شریک بھی تھے تو آنے والے دنوں میں مذہب اور قوم کے نام پر اپنی حکمرانی کے خواب بھی دیکھ رہے تھے۔ ایک ہی اعلان سے سرحد بھی وجود میں آگئی۔ وہی سرحد جوکبھی بھی دکھائی نہیں دیتی سوائےکتابوں، فائیلوں اور نقشوں کے۔

جیسےبھرے پُرے گھر کے آنگن میں ایک دیوار کھڑی کردی گئی ہو۔ جو ساتھ رہتے تھے، ساتھ کھیلتے تھے، روٹھتے تھے، مان بھی جاتے تھے۔ جن کے دل بھی ایک ساتھ دھڑکتے تھے، کوئی دُھن پسند آئے تو جُھومتے بھی ساتھ میں ہی تھے اور جو مستی چڑھ جائے تو ناچتے بھی ایک ہی لے پہ تھے۔ جن کی روحیں مٹی کی خوشبو سے مہکتی تھیں اور سانسوں میں مہک بھی اسی تہذیب کی تھی کہ جس نے ہزاروں سالوں سے ان کے انگ انگ کو مہکا رکھا تھا۔ پھر جب نفرت اور دھوکے کی دیوار کھڑی کر بھی دی گئی۔ لیکن جذبے ، سانسیں اور دھڑکنوں میں نا ہی دراڑ پڑی نا ہی کبھی کوئی فرق آیا۔

لیکن حکمران اِدھر کے ہوں یا اُدھر کے، نفرت کی آگ کو زندہ رکھنے اور دلوں اور دماغوں میں کھڑی کی گئی دیوار کو اور بھی مضبوط رکھنے کے لیے، نفرت کے بیج بوتے رہے تاکہ ان کی حکمرانی بھی قائم رہے تو ان کی روزی روٹی بھی چلتی رہے۔ روزی روٹی تو کیا ان کی عیاشیاں جاری و ساری رہیں۔ بھلے ہی دیوار کے دونوں طرف کے باسی غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گذار رہے ہوں۔ صحت، تعلیم ، ترقی تو دور کی بات، روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہوں۔ لیکن انکی حفاظت کے نام پر ہتھیاروں کے انبار بھی لگائے جاتے رہے تو ہتھیاروں کی خرید پر اپنے گھر بھی بھرے جاتے رہے۔

ایک طرف تو دونوں دیس ایٹمی قوت ہیں اور دوسری طرف دونوں دیسوں میں نا بجلی ہے نا پانی، نا ہی گیس نا ہی پیٹرول۔ جیسی یہاں سی این جی کی لائینیں لگی ہیں، ویسی ہی وہاں بھی لگی ہیں۔ یہاں بھی بجلی نہیں تو وہاں بھی نہیں۔ ہم کہتے ہیں لوڈشیدنگ ہے، وہ کہتے ہیں کٹوتی ہے جی۔ رات ہوتی ہے تو ان کے فوٹ پاتھ بھی بے گھر لوگوں سے سج جاتے ہیں اور اگر یہاں بھی رات کو نکلیں تو یہی مناظر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں کچی آبادیاں ہیں تو وہاں سلم۔ گندگی کے ڈھیر اُدھر بھی ہیں تو اِدھر بھی۔ بھکاری بچوں کی فوجیں وہاں بھی ہیں تو یہاں بھی ۔ لیکن ہیں ہم ترقی یافتہ قوموں کے بیچ کھڑے اور سر بھی اونچا ہے کہ ہم تو ایٹمی طاقت ہیں۔ چاہے وہ دھوتی اورہم پھٹی پرانی شلوار میں کھڑے ہوں۔ کہلاتے تو ترقی یافتہ ہی ہیں۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

یہاں کےعوام اور وہاں کی جنتا ایک ہی طرح کے حکمرانوں کے چُنگل میں پھنسی ہے۔ کرپشن کرپشن کی آواز وہاں سے بھی آتی ہے تو یہاں سے بھی۔ وہاں افسرشاہی، بیوپاری، سیاستدان اورفوجی مل کر راج کرتے ہیں ۔ یہاں بھی سیاستدان، وڈیرہ، افسرشاہی، بیوپاری اور سب سے زیادہ تو فوج ہی راج کرتی ہے۔ سب کے کہیں نا کہیں ایک دوسرے سے رشتے بھی ملتے ہیں توشجرے بھی۔ اُدھر پنڈت کا پاور چلتا ہے تو اِدھر مُلا کی مرضی۔ پیار محبت سے وہ بھی خوف کھاتا ہے تو یہ بھی۔ یہ اپنے راستے پر چلنے کی تاکید کرتا ہے تو وہ اپنے راستے پر۔ اُس کی نظر میں وہ سیدھا راستہ ہے تو اس کی نظر میں یہ۔

سب کا اپنا اپنا راستہ ہے اور اپنی اپنی منزل۔ آپ کا کام صرف ان کے پیچھے پیچھے چلنے کا ہے۔ سوچنے سمجھنے کا کام آپ کا نہیں۔ آپ بس آنکھیں بند کر کے چل پڑیں، منزل پر پہنچانا ان کے ذمے ہے۔ یہ آپ کو یہ دنیا بھی دلا دینگے تو وہ دنیا بھی۔ بس آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہیں۔ انقلاب بس راستے میں ہی ہے۔ پینسٹھ سال سے چل ہی تو رہے ہیں اور کتنی نسلیں بھی گنوا دیں۔ لیکن سنائی اب بھی یہی دیتا ہے کہ بس اب انقلاب آیا ہی چاہتا ہے۔

جب دوریاں کم کرنے کی بات شروع ہوتی ہے تو دوریاں بڑھانے کے بندوبست شروع ہوجاتے ہیں۔ کہیں گولی چلتی ہے، تو کہیں گلے کٹ جاتے ہیں یا پھر کہیں سے دھماکے کی آواز سننے میں آتی ہے۔ جو ایک دوسرے کے قریب آنے کے اقدامات کے اعلانات کیے جاتے ہیں وہ یا تو سرے سے واپس لے لیے جاتے ہیں یا پھر نرے اعلان ہی رہ جاتے ہیں۔ دونوں دیسوں کے وطن پرست سیاستدان بڑھ بڑھ کر بولنا شروع ہوجاتے ہیں اور سونے پر سہاگہ ریٹنگ کے مارے چینل تو آپے سے باہرہی ہوجاتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو دونوں دیسوں کی فوجوں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کردیں یا پھر ایک ہی بم سے دونوں دیسوں کو اڑادیں۔

ادھر دونوں دیسوں کے باسی سانس بھی ساتھ لیتے ہیں تو مسکراتے بھی ساتھ میں ہیں۔ ہنستے بھی ساتھ ہیں تو روتے بھی ساتھ میں ہیں۔ ان کے دُکھ بھی ایک جیسے ہیں تو سُکھ بھی۔ ایک دھن پر رقص بھی کرتے ہیں تو پیار کے ایک بول پر جھوم بھی جاتے ہیں۔ فلمیں، ڈرامے، گیت اور گانے دونوں کے ایک ہی ہیں۔ کوئی کلکتے کا باسی مہدی حسن کو گنگنا رہا ہے توپشاور والا جگجیت سنگھ کے پیار میں پاگل ہے۔ دل بھی ساتھ دھڑکتے ہیں تو سپنے بھی ایک ہی جیسے دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ جو دو دیسوں کے درمیان دیوار کھڑی کی گئی ہے وہ بجائے چھوٹا کرنے کے اور اونچی ہوتی جارہی ہے۔ لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ دیوار کتنی بھی اونچی کرلیں، نا ہوا کو روک سکتے ہیں، نا خوشبو کو، ناہی بادلوں کے دوش پر سفر کرتی موسیقی کی لہروں کو۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

شاعری، ادب، تاریخ، فلسفہ، تھیئٹر، رقص اور موسیقی ہمارا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ ان کو کب تک روکیں گے اور کیسے روکیں گے۔ فکر اور سوچ کے دھارے بھی ایک ہی ہیں اور اب تو آپ کے محتاج بھی نہیں رہے۔ ساز ہو آواز ہو یا پھر آرٹ ہو یا ادب اس کے راستے کب کے کھل چکے ہیں۔ دنیا ایک دوسرے کے قریب آرہی ہے اور آپ برابر والے سے، پڑوسی سے، محلے دار سے ملنے سے بھی خفہ ہیں۔

ہمارے بچے ایک دوسرے کی ترقی سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دیسوں میں پڑھنا چاہتے ہیں، سیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ جو دونوں دیسوں کے حکمرانوں نے ایک دوسرے سے خوف کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے اس سے ہماری پچھلی نسلوں نے تو بہت نقصان اٹھایا ہی ہے۔ خدارا نئی نسل کو تو اپنی تہذیب، روایتوں اور آرٹ ادب سے واقف ہونے دیں۔ ساری دنیا سُکڑ رہی ہے ایک دوسرے کے قریب آرہی ہے لیکن ہمیں ہے کہ روز بروز ایکدوسرے سے دور کیا جارہا ہے۔

آخر اپنے ہی آپ کے بارے میں جاننے پر پابندی کیوں ہے؟ ہم آئینہ کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ ہم تو ایک دوسرے کا پرتو ہیں۔ کیوں ہم مخالف سمتوں میں دیکھنے پر مجبور کیے جا رہے ہیں۔ ہتھیاروں نے کس کو بچایا ہے؟ بچاتی ہے تو صرف محبت ہی بچاتی ہے! جو نفرتوں کی فصل پینسٹھ سالوں سے بو رہے ہو، اب تو اسے کاٹ دو!


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

S A Bukhara Jan 24, 2013 07:19pm
Bauhat Khoob. Dil ki baat. Bauhat se log yeh sochte hain, lekin zubaan pey nahin laate. Aap ne sub kuch piyaar aur refrain mein keh diya.
pasha Jan 25, 2013 11:14am
bohat khoob likha wah....goya mere dil mein tha..