'اقبال اور 'تصور اقبال

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2014
فوٹو -- وکی میڈیا کامنز --.
فوٹو -- وکی میڈیا کامنز --.

یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ ہے، دوسرے حصّے کے لئے کلک کریں


آج علامہ اقبال کو اس دنیا سے رخصت ہوئے چھہتر (76) برس ہو گئے۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال عرف علامہ اقبال سے ہماری جان پہچان کافی پرانی ہے۔ تیسری یا چوتھی جماعت میں ہم نے اقبال پر ایک تقریر کی جس کا آغاز نرگس اور اس کی بے نوری والے شعر سے ہوا تھا۔ بعدازاں اردو کے امتحانات میں مضامین کے لیے اقبال کے درجنوں شعر یاد کیے۔

شکوہ اور جواب شکوہ پڑھ کر ہم ان سے بہت متاثر ہوئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ ہم نے بھی شاعری کے میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس میدان سے تو ہم کب کے نکالے جا چکے لیکن اقبال کے ساتھ عقیدت کا رشتہ ابھی تک قائم و دائم ہے۔

. ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہم نے ایک مسخرہ نما شخص زید حامد کے اقبال کے موضوع پر کیے گئے پروگرام دیکھے اور قسطوں میں اس بلونگڑے کی بددیانتی کو بیان کیا۔ ہمارے ناقص خیال میں اقبال کی ذاتی زندگی اور اوصاف پر جتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اس کے باعث ہم اس زمرے میں کچھ بھی کہنے کے اہل نہیں، ہماری اس تحریر کا مقصد اقبال کے تصور عام (Public Image) پر نظر ڈالنا ہے۔

پاکستان کی نصابی کتب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اقبال کو بطور شاعر اور مفکر پاکستان، ہر کوئی جانتا ہے۔ اقبال کی سیاست اور اس کے بہاؤ کے متعلق البتہ علماء خاموش رہتے ہیں اور اس خاموشی کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اقبال کی سیاسی زندگی کو اتنا اہم نہیں سمجھا گیا اور دوسری وجہ یہ ہے اس پردے کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔

گفتگو کا آغاز اگر شاعری ہی سے ہو جائے تو کچھ حرج نہیں۔ شکوہ، جواب شکوہ، نیا شوالہ اور نوجوانوں کے نام اقبال کا پیغام تو زبان زد عام ہے لیکن 1901 میں ملکہ وکٹوریہ کے انتقال پر ان کے اشعار پر بھی ایک نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے؛

اے آہ آج برق سر کوہسار ہو

یا تیر بن کے میرے کلیجے کے پار ہو

میت اٹھی ہے شاہ کی، تعظیم کے لیے

اقبال اڑ کے خاک سر راہ گزار ہو


اسی طرح 1918 میں پنجاب کے گورنر مائیکل او ڈائر کے نام لکھا قصیدہ بھی قابل ذکر ہے

اے تاجدار خطہ ءِ جنت نشان ہند

روشن تجلیوں سے تری خاوران ہند

سطوت تیری سپاہ کا سرمایہ ظفر

آزادہ، پرکشادہ، پری زادہ، یم سپر


چند روز قبل انصار عباسی نے اقبال کے اشعار ایک نصابی کتاب سے نکالنے پر بہت واویلا کیا تھا۔ ہماری مانیں تو کم ازکم یہ قصیدے ہی ان کتابوں میں شامل کر لیں۔ افسوس کی بات ہے کہ فارسی اب نصاب کا حصہ نہیں ورنہ 1927 میں علامہ مرحوم نے سائمن کمیشن کی ہندوستان آمد پر جو قصیدہ لکھا، وہ یقینا نصاب کا حصہ بننے کے قابل تھا۔

اقبال نے پنجاب کی سیاسی روایات کا خیال رکھتے ہوئے برطانیہ کے وفادار جاگیرداروں کی جماعت یونینسٹ پارٹی میں شرکت اختیار کی اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوئی یعنی جناح لیگ اور شفیع لیگ۔ اس موقع پر اقبال نے شفیع لیگ کا ساتھ دیا بلکہ اس کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کیا۔ کچھ سال بعد البتہ اقبال کے جناح صاحب سے تعلقات بہتر ہوئے۔

اقبال کو نظریہ پاکستان کا خالق کہا جاتا ہے۔ اس دعوے کی بنیاد الہ آباد کے مقام پر 1930 میں ان کا مسلم لیگ کے اجلاس سے ان کا صدارتی خطبہ بتایا جاتا ہے۔ عام طور پر اس خطبے کا محض ایک فقرہ بیان کیا جاتا ہے لہذا ہمیں اس تقریر کو اس کی مکمل شکل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اقتباس ملاحضہ کریں؛

"میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست میں ضم کر دیا جائے۔ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بھرپور موقعہ دیا جائے تو وہ ہندوستان کے خلاف تمام حملوں کی صورت میں ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔

ہندوؤں کے دلوں میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ خود مختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ان علاقوں میں ایک طرح کی مذہبی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔ اسلام کوئی کلیسائی نظام نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار ایک اخلاقی نصب العین پر ہے۔

میں مسلمانان ہند کو ہرگز یہ تلقین نہیں کروں گا کہ وہ کسی ایسے نظام کے لیے رضا مند ہو جائیں جو وفاق کے صحیح اصولوں پر مبنی نہ ہو۔ اگر صوبوں کی تقسیم کسی صحیح اصول کی بنا پر ہو گی تو اس سے مخلوط اور جداگانہ انتخابات کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔ یہ صوبوں کا موجودہ ڈھانچہ ہے جس کی وجہ سے یہ جھگڑا قائم ہے۔"

ان الفاظ میں اگر آپ کو مستقبل کے پاکستان کی شبیہہ ملتی ہے تو ہمیں بھی مطلع کریں کیونکہ ہمیں تو ایسی کوئی امید کی کرن نظر نہیں آئی۔ کے کے عزیز کے مطابق اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اقبال نے برصغیر کی تقسیم کی تجویز اس خطبے میں پیش کی تھی تو اس سے پہلے تریسٹھ (63) ایسی تجاویز پیش کی جا چکی تھیں جن میں سب سے پہلی تجویز اقبال کی پیدائش سے بھی پہلے ایک برطانوی سیاستدان نے کی تھی۔

تاریخ دان، حسن جعفر زیدی نے اپنے مضمون ’قیام پاکستان: نظریاتی یا جدلیاتی‘ میں لکھا کہ؛

”قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے کسی بیان اور مسلم لیگ نے اپنی کسی سرکاری قرارداد میں کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ 1938 میں علامہ اقبال کا انتقال ہوا۔ اسی سال دسمبر میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ میں منعقد ہوا۔ قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبے میں اس سال کے دوران وفات پانے والی تین معتبر شخصیات، مولانا شوکت علی، کمال اتا ترک اور علامہ اقبال کے بارے میں تعزیتی الفاظ کہے۔ آپ نے علامہ کے بارے میں فرمایا:

’ان کی وفات مسلم ہند کے لئے ناقابل تلافی ہے۔ وہ میرے ذاتی دوست تھے اور دنیا کی عمدہ ترین شاعری کے مغنی تھے۔ وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے۔ آپ کی پرمغز شاعری مسلمانان ہند کی امنگوں کی سچی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ شاعری ہمارے لیے اور ہمارے بعد کی نسلوں کے لیے ولولہ مہیا کرتی رہے گی۔‘

آپ نے علامہ کے بارے میں بطور سیاست دان یا فلسفی کے کچھ نہیں کہا اور مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے تصور کے خالق کا تو دور دور تک ذکر نہیں ہے۔

مارچ 1940 میں لاہور میں منعقدہ مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم سمیت کسی مقرر نے علامہ اقبال کا ذکر تک نہیں کیا حالانکہ جلسہ گاہ سے نصف کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر اقبال کا مزار زیر تعمیر تھا۔

یہ بات تحقیق طلب ہے کہ اقبال کو تصور پاکستان کے خالق کے طور پر کب اور کہاں شروع کیا گیا۔ اس مشق کا آغاز نوائے وقت نے کیا اور بعد ازاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے یہ بیڑا اٹھایا۔ “

اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر عبد السلام خورشید نے کہا کہ اس اخبار کے ابتدائی دنوں میں دو مقاصد تھے: اردو زبان کی ترویج اور علامہ اقبال کے کام کا فروغ‘۔ (مزید بحث کے لیے ملاحضہ کریں ضمیر نیازی کی پاکستانی اخبارات پر لکھی گئی کتاب)

ہمارے ناقص خیال میں اقبال کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جس کسی نے کلام اقبال سے جو نکالنا چاہا، اسے مل گیا۔ چاہے وہ بائیں بازو والے ہوں، علی شریعتی ہوں، جماعت اسلامی والے ہوں، ڈاکٹر اسرار احمد ہوں یا جاوید غامدی، ہر کسی کو کچھ نہ کچھ مل گیا۔

اقبال ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل تھے اور ہر غیر معمولی شخصیت کی طرح تضادات ان کی زندگی کا حصہ تھے۔ ہمیں اقبال کا ہمیشہ ایسا تصور دیا جاتا ہے جس کے مطابق ان پر تنقید کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اقبال کوئی مطلب پرست خوشامدی شاعر نہیں تو تنقید سے بالا دیومالائی کردار بھی نہیں تھے۔ وہ ایک عمدہ شاعر اور فکر سے بھر پور انسان تھے اور سیاست میں بھی انہوں نے اپنے وقت کے مطابق قدم اٹھائے چاہے تاریخی طور پر وہ اقدام غلط ثابت ہوئے۔

آج کے دور کا تقاضا یہ ہے کہ اس امر کا ادراک کیا جائے کہ اقبال اس عہد کے ابھرتے ہوئے پنجابی درمیانے طبقے کے شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں پنجابی شاونزم کی گونج بلند ہے اور ان کی وفات کے بعد ان کی ترویج کا ذمہ بھی پنجابی شاونسٹوں نے اٹھایا، تاکہ صوبہ گجرات کے باسی اور مغربی وضع قطع کے حامل محمد علی جناح کے مقابلے میں ایک پنجابی شخصیت کو نمایاں کیا جائے۔

آخر میں علامہ کی ایک مشہور نظم؛



ضرور پڑھیں

تبصرے (11) بند ہیں

نوشاد احمد Apr 21, 2013 08:37am
یہ اقبال کا المیہ نہیں ہے بلکہ فکر اقبال کا المیہ ہے جس میں ہر قسم کا مصالحہ ہر قسم کے لوگوں کے لئے موجود ہے جس کا جو جی چاہے نکال لے.
یاسر نعمان Apr 21, 2013 09:01am
یہ اشعار بھی تو اقبال ہی کی تخلیق ہیں: ھے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند (نظم 'رام') پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے (بابا گرو نانک کیلئے کہی گئی نظم' نانک' )
FURQAN Apr 21, 2013 10:45am
WHAT ARE YOU WANTING TO PROVE? I GOT NO IDEA WHETHER YOU ARE TRYING TO PROVE HIM WRONG OR RIGHT. I JUST GOT ON VAGUE IDEA THAT YOU SAY ITS QUITE FAIR TO SATIRE ON IQBAL. AM I RIGHT?
Super Man Apr 22, 2013 04:02pm
بہت عمدہ ، دراصل ہمے حقائق سے مو چرانے کی عادت ہو گئی ہے ، ہر چیز کے ختنے کرنا ہمارا شیوا بن چکا ہے ، نرگسیت میں مبتلا ہیں ہم سب .....جب تک ہم انسان سماج کو انسانیت کی ستہ پر نہیں دکھے گے ہم یہاں نہیں جی سکے ........امید کرتا ہوں عنسا ر سیاسی کو یہ آرٹیکل گیس کر جائے گا ....اور ہاں سپر من یا مرد-ا-مومن جو مرضی سمجھے مجھے
Israr Muhammad Khan Apr 22, 2013 08:30pm
بلکل صحیح اور درست معلومات فراہم کی گئی هیں اسکیلۓ شکریہ اقبال نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ایک علیحدہ ملک کا زکر نہیں کیا انکو اپنے ملک هندوستان سے محبت تھی اس لئے انہوں نے سارے جہاں سے اچھا هندوستان همارا جیسی شعرآفاق نظم لکھی تھی وه شاعر مشرق تھے لیکن یار لوگ انکو شاعر پاکستان کا بے تکا حطاب بھی دے چکے هیں اور سوامی خان بھی پاکستان کو اقبال کا پاکستان کا پاکستان بنانا چاہتے هیں
aazur May 01, 2013 02:03am
کتنے افسوس کی بات ہے کہ اچھے خاصے شاعر کو سیاستدان بنانے کی کوشش میں ان کی تخلیقی صلاحیت کو بھی پراگندہ کیا گیا ہے. جھوٹ کبھی بھی چھپایا نہیں جا سکتا. یہ کون بھول سکتا ہے کہ اب بھی ہندوستان میں "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا" گایا جاتا ہے اور نظریہ پاکستان پر پھبتی کسی جا سکتی ہے. مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے جنرل ڈائر جیسے وحشی کی شان میں ایک تعظیمی نظم لکھی ہے. کاش ہمیں سچ اور صرف سچ پڑھایا جاتا اور سچ بولنا سکھایا جاتا.
Majid Apr 22, 2014 10:35am
AOA, brother, Kaash yeh batein hamein school mein batein jaein, so we should no built a v high profile personality image in our mid, so we should be able to discuss and agree and disagree, our society have main problem that what we have portrae in our mind through (Masharetealom) we dont want to damage that image.
attal Apr 24, 2014 02:39pm
ajeeb c kichrhi banai thi unho ne... har kisi k liye kuch na kuch chorha gya ,,,, kisi ko naraaz nai kia. marxixts se lekar pan islamism ka nazriyaa rakne walo thak sub khush
me shocked Apr 25, 2014 05:51am
Me Amazingly shocked again, we see more Paki bashing, Arab bashing, Islam bashing and now **Iqbal bashing**! Is there an end to this insanity? Abdul Hamid Abid? Who are you? He complains about Zed Hamid, but what is he doing with this article - propagating hate? This dude, Abdul Hamid Abid, doesn't know how much Iqbal is appreciated by the URDU speaking folks. Why does Dawn allows such hatemongering and prejudice articles? If articles like this were published in West, they will be subjected to Hate Crime. Abdul Hamid Abid, get a life. Lets hope Dawn doesn't censor my comments.
شیہک Apr 25, 2014 01:57pm
@me shocked: ہمیں عقلی اور علمی بنیاد پر بات کرنا چاہیئے۔ اگر کسی کا نقطہ نظر ہم سے مختلف ہے تو اتنے شور سرابے کی ضرورت نہیں، مہذبانہ، مدللانہ اور علمی طریقے سے اختلاف کی جئے۔ اگر حقائق کی صحت سے اختلاف ہے تو درستی کی جئے۔ برداشت بہت اہم جزو شخصیت ہے۔ اسے اختیار کرنا شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے۔
me shocked Apr 26, 2014 07:39am
@شیہک: Dude, there should not be room for hate articles or speeches in either civilized manner or in literary sense. We want freedom to express ourselves, but we should also understand that freedom comes with responsibilities. Take following 2 points in the article: ” مسخرہ نما شخص زید حامد” “اقبال اس عہد کے ابھرتے ہوئے پنجابی درمیانے طبقے کے شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں پنجابی شاونزم کی گونج بلند ہے اور ان کی وفات کے بعد ان کی ترویج کا ذمہ بھی پنجابی شاونسٹوں نے اٹھایا، تاکہ صوبہ گجرات کے باسی اور مغربی وضع قطع کے حامل محمد علی جناح کے مقابلے میں ایک پنجابی شخصیت کو نمایاں کیا جائے۔ “ Above reflects that the author is in no mood to be civilized, and he is on the path of discrediting IQBAL as a poet with a hidden mission to blame Punjabis. Coming from an URDU speaking family in Pakistan, I am well aware of this type of propaganda to create split in the country – especially now because of Sharif in power. We should not tolerate debates and articles promoting prejudices and hate – civilized or uncivilized