تصویری خاکہ - ماہ جبیں/ ڈان۔ کام

کوئی زمانہ تھا کراچی کے جو نوجوان کوشش کے باوجود لڑکی پھانسنے میں ناکام تھے وہ اس بات پر اتفاق کرنے لگے کہ ان میں صورت شکل کی کوئی کمی ہے نا ہی خود اعتمادی کی۔ اور ڈائیلاگ بھی وہ انڈیا کی اے فلموں سے اٹھاتے ہیں۔ اگر کمی ہے تو اپنے فون، اپنی کار اور اپنے فلیٹ یا کمرے کی۔ یہ تین ضروریات پوری ہو جائیں تو سمجھو ہر روز نئی ڈیٹ۔

حال ہی میں لڑکے سے مرد بننے والے اور سائیکل یا بس ویگن سے ترقی کر کے موٹر سائیکل کو ذاتی سواری بنانے والے یہ نوجوان یوں اپنی چمکتی دمکتی یاماہا اور کاواساکی پر بہت اتراتے تھے لیکن لڑکیوں کے رویے نے انہیں سکھایا تھا کہ وہ موٹر سائیکل پر ڈیٹ مارتے ہوئے کچھ بے پردگی محسوس کرتی ہیں، اور پھر گاڑی کے بغیر ڈرائیو تھرو سینما بھی نہیں جا سکتے تھے جو غیر موزوں حرکات کے لیے سب سے موزوں جگہ ہوا کرتی تھی، اور اس سے بھی بہتر اپنا یا کسی دوست کا فلیٹ۔ اور  ٹیلی فون کے بغیر تو لڑکی سے بات کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ تینوں ضروریات کبھی ایک وقت میں پوری نہیں ہو سکتی تھیں جب تک ان کے پاس ڈھیر سا پیسہ نہ ہو۔

ان دل جلوں کی یہ سوچ، بھلے وہ صحیح تھی یا غلط، اس صنعتی اور پیشہ وارانہ ترقی کا سبب بنی جس کے لیے آج کراچی جانا جاتا ہے۔ سیٹھوں اور بنیوں کے اس شہر میں انٹرنیٹ کی شاہراہ تعمیر کر کے اس پر کاروبار کی نئی ٹریفک رواں دواں کرنا اسی نسل کا کام ہے۔ بہت کام کیا انہوں نے اور اس کے صلے میں انہیں رتبہ ملا، عزت ملی، اچھا رشتہ بھی مل گیا، لیکن ایک خلش رہ گئی دل میں، اپنی گاڑی میں، اپنے کمرے میں ڈیٹ مارنے کی۔ انہوں نے کمایا تو بہت لیکن جس مقصد کے لیے انہیں دولت درکار تھی وہ پورا نہیں ہوا۔

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کام کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بلکہ بیشتر مسئلے کام کو اپنی ماں نہیں تو دایا ضرور مانتے ہیں۔ بہت سے شریف لوگ جو محنت اور ایمانداری سے ہر روز کام کرتے ہیں اور برسوں تک کیے چلے جاتے ہیں، وہ چالیس برس کی نوکری میں کبھی کچھ بناتے نہیں، کچھ پیدا نہیں کرتے۔ وہ صرف ایسے لوگوں کو خدمات فراہم کرتے ہیں جو ایسی کمپنیوں کو اپنی خدمات دیتے ہیں جو صنعتکار کو خدمات پیش کرتا ہے۔ ایک بندے کے کام کی وجہ سے ہزار بندوں کو کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کے لیے کام پیدا کر رہا ہے، زیادہ اور تیز کام کرنے پر اکسا رہا ہے، ہم سب کی زندگی کو بدرنگ، بدبو اور بدذائقہ مشینی زندگی بنا رہا ہے۔ اور یہ سب کس لیے؟

جب ٹیکنالوجی کا انقلاب لانے والی نسل دن میں نوکری اور شام میں کمپیوٹر کالج کی پڑھائی کر رہی تھی تو ان کے علاقے ہی کے کچھ لڑکے یہ سمجھ چکے تھے کہ ’کام جوان کی موت ہے’ اور اس لیے تعلیم یا کاروبار میں وقت ضائع کرنے کی بجائے وہ اپنی یا مانگی ہوئی سی ڈی 70 پر ڈیٹ مار رہے تھے۔ انہیں فون، فلیٹ اور کار کے نہ ہونے کا  کبھی احساس نہیں ہوا۔ آج بھی جب وہ نسل بڑے بڑے دفاتر چلاتی ہے، لمبی چوڑی میٹنگز کرتی ہے، اور بڑے لوگوں میں اٹھتی بیٹھتی ہے، تو اسی علاقے کے کچھ نوجوان سستے، دیسی موٹر سائکل پر ڈیٹ مار رہے ہوتے ہیں۔ دل والے تو سائکل کے ڈنڈے پر معشوق کو بٹھا کر یا ساحل سمندر پر کدکڑے لگا کر بھی اپنا اور گرل فرینڈ کا دل خوش کر لیتے ہیں۔

جو لوگ زندگی بھر کام کر کے یہ جان چکے ہیں کہ جوانی کام میں کھپانے کی چیز نہیں ہے، انہیں چاہیے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو سکھائیں، انہیں سمجھائیں کہ ان کا دل آج جو خواہش کرتا ہے اسے آج ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان کا خیال ہے کہ اس وقت کام میں الجھ کر وہ اتنا پیسہ کما لیں گے کہ پھر آزادی سے اپنے دل کی خواہشات پوری کرتے رہیں گے، تو وہ جان لیں کہ کام کوئی لاٹری نہیں بلکہ لگ جائے تو زندگی بھر کا روگ ہے۔ یہ پیسہ دیتا ہے، اختیارات دیتا ہے، بہت سی سہولیات بھی دیتا ہے، اور اس سب کے بدلے میں آپ سے لیتا ہے آپ کا وقت۔ پورے کا پورا وقت۔ آپ کے پاس اپنے پیاروں کے لیے کوئی وقت بچتا ہے نا ہی اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے کے لیے۔ اگر آپ کی قسمت اچھی ہوئی تو آپ چالیس کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے کر زندگی کو نئے سرے سے شروع کریں گے ورنہ ایک سڑیل اور کھڑوس بزرگ بن کر اپنے خاندان اور محلے کے نوجوانوں کی زندگی مشکل بناتے رہیں گے۔ جب آپ ٹھنڈی آہ بھر کر کہتے ہیں کہ آپ نے تو زندگی بچوں کو پالنے میں صرف کر دی تو آپ جھوٹ کہتے ہیں، اس لیے کہ آپ کے پاس بچوں کے لیے تو کبھی وقت تھا ہی نہیں، آپ تو ساری زندگی صرف کام کی چکی چلاتے رہے۔

سو دوستو، بزرگو، مہربانو، اگر آپ کام کرتے ہیں تو آپ کے پاس دو ہی صورتیں ہیں: جو کر رہے ہیں اور جیسے کر رہے ہیں وہ کرتے رہیں اور ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کی گولیاں کھاتے رہیں، اور یا کام چھوڑ کر زندگی جینے اور اس کا مزہ لینے کا آغاز کریں۔ اپنے دل سے پوچھیے اس کی چاہت کیا ہے، اور پھر جو رستہ وہ بتائے اس پر چلنا شروع کر دیجیے۔ خوشیوں کا سٹیشن اسی راستے پر آتا ہے۔


مسعود عالم اسلام آباد میں ایک مصنف ہیں اور صحافت کی تربیت دیتے ہیں۔

[email protected]

تبصرے (10) بند ہیں

قاری Jul 06, 2012 01:04pm
بازاری سا لگتا ھے - برا نا منانا دوست۔
mnaknabeel Jul 06, 2012 07:26pm
بہتر ھوتا اگر کوئی کام کی بات لوگوں کو بتائی جاتی یہ آرٹیکل نوجوانوں کو صرف گمراھ ھی کر سکتا ھے.
mohammad Jul 07, 2012 02:52am
well done boys. wallah, the nation is proud of you. WE PRAY FOR YOUR GOOD LUCK AND BLESSINGS FROM ALLAH ON YOU.ٰٰ WE ACHIEVE SOMETHING SCIENTIFICALLY, THAT WILL HELP US DRIVE OUT FROM THIS ECONOMIC CRISES.
ساکب Jul 07, 2012 08:51am
What they will do without work? Who will feed them the Government?
فرزانہ شاہ Jul 07, 2012 10:01am
مسلمان بھائیوں کو بات سمجھ نہیں آ رہی. بیچارہ لکھاری. منٹو رو رو کر مر گیا مگر انہیں کالی شلوار سے ایک ہی خیال آتا ہے. بھائی پوری تحریر پڑھا کرو. اس کے لیے تو چین جانے کی ضرورت بھی نہیں۔
فرزانہ شاہ Jul 07, 2012 10:05am
بازاری؟ واہ واہ کیا تصور پایا ہے بازار کا آپ نے. امید ہے آپ آئیندہ ایسی تحریریں پڑھنے سے اجتناب فرمائیں گے اور آنکھ کے پردے والی بات یاد رکھیں گے۔
كمال خان Jul 07, 2012 03:01pm
I dont know how are you trying to relate it with Manto Sahib. I‌ suggest we should also come out of Kaali Shalwar and Thanda Gosht. Do you think there is something useful for anyone in this article or any thing satirical or cultural or knowledge-bearing ? We ourselves are the trned setters in fact
صام Jul 08, 2012 04:38am
The easiest thing is to get married and then produce children in Pakistan.Nobody cares about economy or over population .Pakistani banking sector is very very strong therefore there are lots of job around (if you have good refeerence).
قاری Jul 09, 2012 11:09am
منٹو سے لاکھ اختلاف کے باوجود میں انھیں ایک بڑا ادیب مانتا ھوں. ان صاحب کا ان سے تقابل آپ کی کم علمی کی دلیل ھے.بازاری اور سوقیانھ پن آپ کو محسوس نھیں ھوا تو اس سے آپ کی سوچ کی عکاسی ھوتی ھے. مجھے ڈان سے اس معیار کی امید نھیں تھی
قاری Jul 09, 2012 11:15am
اور چین جانے کی بات اگر مزاق بھی ھے تو انتھائ بیھودھ. خدا کے لے اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لے اس حد تک نا جائیں.